رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
دل کی وحشت کا طلاطم بھی ٹھہر جاتا ہے
نیند تاریک ھیولے کی طرح
آنکھ سے دور فضاؤں میں اٹک جاتی ہے
اور پھر روح کے ویران زمانوں سے کہیں
تیری آواز چلی آتی ہے
پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں
سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا
کہیں آوارہ ہوا کی دستک
تیرگی میں کسی مٹی کے دیئے کی دھڑکن
خواب کی چاپ
سر شب کسی بھٹکے ہوئے بے خواب مسافر کا گماں
اور پھر ساری صدائیں سبھی غم
تیری آواز میں ڈھل جاتے ہیں
ڈھونڈتی پھرتی صدائیں سر بربادی دل
شہر در شہر سفر کرتی ہیں
اور پھر ٹھہر بھی جائیں کہیں اک دو پل
غمزدہ شہر میں برباد مسافر کی طرح
بے نوا عمر کے زندانوں میں
رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
ہم جہاں بھی ہوں
تیری آواز چلی آتی ہے