کبھی غور کیا ہے کہ شاخوں سے بچھڑے ہوئے پھول جوں جوں کملاتے جاتے ہیں، اُن Ú©ÛŒ خوشبو بڑھتی جاتی ہے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے نہ Ú©Û’ فنا کا وقت قریب Ø¢ رہا ہے، اور وہ وقت مرگ سے پہلے، اپنی Ø+یات Ú©Û’ لمØ+ÙˆÚº Ú©Ùˆ سُر خرو کرنا چاہتے ہیں۔ تاکے فنا Ú©Û’ بعد بھی چھونے والوں Ú©Û’ ہاتھ پر اُن کا لمس زندہ رہے اور اُن Ú©ÛŒ مہک Ù…Ø+سوس کرنے والوں Ú©ÛŒ سانسوں میں تا ابد رہے۔ وہ فنا ہو کر بھی بقا پا جاتے ہیں۔
عشق کا سفر بھی کچھ ایسا ہی سفر ہوتا ہے۔ فنا میں ہی بقا ہوتی ہے۔ جوں جوں اس سفر کی لذتیں گھٹتی جاتی ہیں۔ رنگینیاں مٹتی جاتی ہیں، یہ سفر پر نور اور معطر ہو جاتا ہے۔ جونہی انسان وجود سے بے نیاز ہو کر ہستی کی جستجو کرتا ہے۔ وہ سارے استعارے سمجھ جاتا ہے۔
جب کوئی بشر قرب مرگ میں بھی انسانیت کی خوشی کے لئے کچھ اور مرتا ہے نہ تو وہ نواز دیا جاتا ہے۔ بقا کے خزانوں سے۔
یہی Ø+قیقت بشر ہے دوست
فنا سے بقا تک