زلفوں کو سنوارا ہوگا
سر شام اس نے زلفوں کو سنوارا ہوگا
ہاتھ میں کنگن آنکھ میں کاجل آوارہ ہوگا
اس کے جوڑے میں سجا وہ سفید گلاب
رات کو سوتے میں کسی نے تو اتارا ہوگا
عالم تنہائی میں شب بھر کروٹیں لے کر
کوئی تو ہوگا جسے اس نے پکارا ہوگا
ہاۓ! وہ نیند میں ڈوبی ہوئی مخمور آنکھیں
جس نے دیکھا وہ دل وہیں پہ ہارا ہوگا
اس کے بیتاب لرزتے ہوۓ ہونٹوں پہ وصی
ہمیں یقین ہے مچلتا ہوا وہ نام ہمارا ہوگا