وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے
اس سے گل رنگ کا دعویٰ کرے پھر کس رو سے

کس سے اے شوخ ہوئی رات کو ہاتھا پائی
نورتن آج جو ڈھلکا ہے ترے بازو سے

کل تو آغوش میں شوخی نے ٹھہرنے نہ دیا
آج کی شب تو نکل جاؤ مرے قابو سے

شمع کے رونے پہ بس صاف ہنسی آتی ہے
آتش دل کہیں کم ہوتی ہے چار آنسو سے

ایک وہ دن تھا کہ تکیہ تھا کسی کا زانو
اب سر اٹھتا ہی نہیں اپنے سر زانو سے

نزع میں ہوں مری مشکل کرو آسان یارو
کھولو تعویز شفا جلد مرے بازو سے

شوخی چشم کا تو کس کے ہے دیوانہ انیس
آنکھیں ملتا ہے جو یوں نقش سم آہو سے