Results 1 to 3 of 3

Thread: Herroo kaa soodagarr

  1. #1
    Join Date
    Jun 2010
    Location
    Jatoi
    Posts
    59,925
    Mentioned
    201 Post(s)
    Tagged
    9827 Thread(s)
    Rep Power
    21474910

    Default Herroo kaa soodagarr

    ہیروں کا سوداگر


    دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرجب پہلی مرتبہ میری نظراُس پرپڑی تو میں نے اُسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ ۔ ۔ مگرجب وہ اکثرشام کے بعد وہاں دکھائی دینے لگاتو میں نے ایک دن اُس سے پوچھ ہی لیا۔
    ’’میں یہاں ہیرے فروخت کر نے آتا ہوں ‘‘
    اُس Ú©Û’ اِس جواب سے میں شش در Ùˆ متعجب ہوکر اُس کا منہ تکنے لگا۔میری Ø+یرتوں Ú©Ùˆ بھانپتے ہوئے اُس Ù†Û’ اپنے کندھے سے بوری اتاری اور گویاہُوا
    ’’اِس طرØ+ کیوں تک رہے ہو؟‘‘
    اور پھر جلدی سے بوری کامنہ کھولا اور اُس سے درجنوں رنگ بہ رنگ پتھرنکال کر زمین پر پھیلادیے ۔ایک گول مٹول سرخی مائل پتھرمیری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
    ’’یہ ملکہ الزبتھ دوم Ú©Û’ استعمال میں رہا ہے ØŒ جب وہ آئینے Ú©Û’ سامنے جایا کر تی تھی تو یہ پتھر سنگھار Ù…ÛŒØ²Ù¾Ø±Ù…ÙˆØ¬ÙˆØ¯ÛÙˆØªØ§Û ”اس Ú©ÛŒ قیمت ایک لاکھ امریکن ڈالرہے ۔‘‘
    سرمئی پتھرمیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
    ’’براہم لنکن کویہ موتی اُس Ú©ÛŒ اعلیٰ خدمات پیش نظر رکھتے ہوئے ایک امریکی سرمایہ کارجان ای ایگرنے تØ+فہ میں دیا تھا؛ اس Ú©ÛŒ قیمت پچپن لاکھ امریکن ڈالر ہے ۔، ØŒ
    بادامی رنگ کے چھوٹے سے پتھر کو دکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ
    ’’یہ Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ نشانی ہے Û” Û” Û” ویسے تو اربوں ڈالربھی اگرمجھے کوئی دے تو میں اسے نہ دوں Û” Û” Û” مگر میراکاروباراس نوعیت کا ہے کہ میں اسے زیادہ دیرتک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا؛یہ دو کر ÙˆÚ‘ ڈالرکا ہے ۔لیڈی ڈیاناکو اس Ú©Û’ آخری عاشق دودی الفائدنے Ù…Ø+بت Ú©Û’ آخری تØ+فے Ú©Û’ طور پر دیا تھا۔جب ان Ú©ÛŒ گاڑی Ú©Ùˆ Ø+ادثہ پیش آیا تو وہاں موجودایک شخص Ù†Û’ اِسے اُٹھا لیا تھا۔‘‘
    نہ جانے کتنے اور موتی اور ہیرے اس کی بوری میں تھے ۔ ۔ ۔ جو کئی نام ور ہستیوں کے زیر استعمال رہ چکے تھے ۔میں نے اس سے پوچھا
    ’’یہ موتی کون خریدتا ہے ؟‘‘
    تو اس نے بتایا
    ’’یہاں کورین، چائنیز، ملائشینز ØŒ جرمنز اور عریبک لوگ آتے رہتے ہیں ۔میرازیادہ کاروبار ان سے رہتا ہے ØŒ تاہم بعض اوقات کوئی پاکستانی تاجربھی مال اُٹھا لیتا ہے ØŒ لیکن میں اِن سے زیادہ تجارت اِس لیے بھی نہیں کر تاکہ یہ لین دین ٹھیک نہیں کر تے Û”Ú†Ú¾ ماہ پہلے کر اچی Ú©Û’ ایک تاجرکوڈیڑھ ارب ڈالرکے ہیرے دیے تھے Û” Û” Û” اُس Ù†Û’ ایک ماہ Ú©Û’ اندر رقم دینے کاوعدہ کیا تھا، مگرتاØ+ال رقم نہیں آئی۔‘‘
    یہ کہتے ہوئے وہ انتہائی تیزی سے ہوٹل کی طرف دوڑا۔ ۔ ۔
    Ù+Ù+Ù+
    صØ+ÛŒØ+ نام اس کا غالباً عبدالشکور ہے Û” Û” Û” لیکن لوگوں میں وہ کئی ناموں سے مشہور ہے Û”Ú©Ú†Ú¾ نام اس Ù†Û’ خودچُنے تھے اور بعض اس Ú©Û’ القابات اور خطابات شمارکیے جا سکتے ہیں ۔ایک زمانے میں وہ’’شِکر ا‘‘کے نام سے شہرت Ú©Ùˆ پہنچا۔ Û” Û” یہ اس کا اپنارکھا ہوانام ہے Û” Ù¾Ú¾Ø±ÙˆÛâ€™â€™Ø¯ÙˆÙ†Ù…Ø¨Ø ±â€˜â€˜Ú©Û’ نام سے جانا گیا۔یہ نام اُسے ان لوگوں Ù†Û’ دیاجو اس Ú©Û’ ’’کاروبار‘‘ Ú©Ùˆ جعلی سمجھتے ہیں Û” Ú©Ú†Ú¾ لوگ’’آن وڑئی اوئے ‘‘(*)کہہ کر بھی اُسے مخاطب کر تے ہیں ۔جس Ú©Û’ جواب میں اس Ú©Û’ منہ سے پھول جھڑناشروع ہوجاتے ہیں Û” Û” Û” اور وہ ہیرے جن Ú©ÛŒ ما لیت اربوں سے زیادہ ہوتی ہے مخاطب Ú©ÛŒ جانب برسناشروع ہوجاتے ہیں Û” اپنی توہین شکر Û’ سے کبھی برداشت نہیں ہوپاتی ØŒ بھلے اس کا اربوں میں نقصان ہوجائے ۔پھینکے ہوئے ہیروں Ú©Ùˆ دوبارہ سمیٹنے Ú©Û’ بعدبیس کلوسے زیادہ وزن دار بوری کاندھے پراُٹھا کر کسی اور جانب Ú†Ù„ Ù¾Ú‘Û’ گا۔
    میں Ù†Û’ جب ہوش سنبھالاتو وہ اس شہر میں موجودتھا۔اُس وقت یہ Ø+الت نہیں تھی اُس کی۔ 1986Ø¡ میں ایک مرتبہ اس Ù†Û’ بتایا تھاکہ وہ سائیکل پر دو مرتبہ تین ہزارکلومیٹر فاصلہ Ø·Û’ کر Ú©Û’ کر اچی گیا اور آیا ہے ۔تن سازی Ú©Û’ مقابلوں میں بھی Ø+صہ لیتارہا۔جس وقت مجھے یہ بتارہا تھا اُس وقت وہ اپنے موٹر سائیکل Ú©Ùˆ رکشا میں تبدیل کر رہا تھا۔ رکشا جب تیار ہوا تو وہ بڑے فخر سے شہر میں اُسے پھراتارہا۔ Û” Û” کیوں کہ اس Ú©ÛŒ بناوٹ میں استعمال ہونے والے پرزے اس Ú©ÛŒ اپنی انجینئرنگ کانتیجہ تھے Û” دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اس شہر کا پہلارکشا تھا۔رکشا Ú©ÛŒ تکمیل Ú©Û’ بعداُس Ù†Û’ خواہش ظاہرکی تھی
    ’’اگرمیرے پاس وسائل ہوتے تو میں بڑے پیمانے پر رکشا سازی کاکام شروع کر تا۔‘‘ دیکھنے والوں Ù†Û’ دیکھاکہ’’شکر ا‘‘دن بھرمیلوں Ú©ÛŒ مسافت Ø·Û’ کر Ú©Û’ رکشاپرآئس کر یم ØŒ اچار اور دیگرکئی چیزیں بیچا کر تا۔ پھر یوں ہوا کہ اس Ú©ÛŒ موٹرسائیکل خراب رہنے لگی۔ Û” Û” اور آخرکار اس Ù†Û’ موٹرسائیکل بیچ کر گدھا خرید لیا۔موٹرسائیکل Ú©Û’ پیچھے باندھی گئی گاڑی Ú©Ùˆ اس Ù†Û’ موٹرسائیکل سے جدا کر دیا تھا۔ Û” Û” پھروہی گاڑی اس Ú©Û’ گدھے Ú©Û’ کام آئی۔یعنی رکشا ØŒ چاند گاڑی میں بدل گیا۔میں بتا چکا ہوں کہ شِکر ا میلوں پھرنے کاعادی تھا اور گدھے Ú©Û’ لیے یہ مسافت ناقابل برداشت تھی Û” Û” Û” اس لیے وہ جلدہی اسے چھوڑگیا۔بس یہی دن تھے جو اسے معاشرے Ú©ÛŒ ٹھوکر ÙˆÚº پرچھوڑگئے ۔شروع میں وہ تفننِطبع Ú©Û’ لیے اپنی ذات Ú©Û’ Ø+والے سے بھی مزاØ+ کر تا تھا ۔لوگ سن کر خوش ہوجاتے اور اسے چائے Û” Û” Û” سگریٹ پیش کر تے ۔پھرلوگوں Ù†Û’ اسے مذاق کا نشانہ بنانامعمول بنا لیا۔ اور اب تو چھوٹے بڑے Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ وہ خبرلی تھی کہ وہ خودسے بے خبر ہو گیا۔ اس Ú©ÛŒ Ø+الت یہ ہے کہ وہ نصف من پتھروں کوہیرے سمجھ کر دن بھرکاندھے پر اٹھائے پھرتا ہے Û” Û” Û” اور رات Ú©Ùˆ ان Ú©Ùˆ اپنے پہلو میں دبا کر سوتا ہے Û”
    کئی برس گزرگئے Û” Û” Û” شکر Û’ سے متعلق باتیں ہوا میں تØ+لیل ہونے لگیں Û” Û” Û” لوگوں Ú©ÛŒ دل چسپیاں بدلنے لگیں Û” Û” Û” ماØ+ول میں تبدیلی آئی۔ میں اپنے ایک دوست Ú©Û’ ساتھ دل آرام ریسٹورنٹ Ú©Û’ باہرپڑی کر سیوں پر بیٹھا ہوں Û” Û” Û” دفعتاً دو نمبر Ø¢ جا تا ہے Û” Û” Û” اب اس Ú©ÛŒ Ø+الت انتہائی قابل رØ+Ù… ہے Û” چوکور میز Ú©Û’ ایک کونے پرپیرجما کر کہتا ہے
    ’’مال چاہیے ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    میں اُسے اس Ú©Û’ پرانے Ø+ال میں سمجھتے ہوئے کہتا ہوں
    ’’کیا جارج ڈبلیوبش سے ڈیل نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پرتا لی کے سے اندازمیں مارتے ہوئے بہ آوازبلندقہقہہ لگاتا ہے ۔ ۔ ۔ تو سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔قدرے توقف کے بعدکہنے لگتا ہے
    ’’جناب۔ ۔ ۔ !وہ پرانی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ اب اور مال بکتا ہے ‘‘
    ’’اب کون سامال بکتا ہے ۔ ۔ ۔ شکر یا؟‘‘میں نے دل چسپی سے پوچھا
    ’’شراب۔ ۔ ۔ افیون۔ ۔ ۔ ہیروئن۔ ۔ ۔ چرس۔ ۔ ۔ نن باؤ۔ ۔ ۔ ویاگرا۔ ۔ ۔ ‘‘
    دونمبرکے اس انکشاف سے میں چونک ساگیا۔ Û” Û” اب وہ مجھے Ø+قیقتاًدونمبر٠Ø+سوس ہورہا تھا Û” Û” Û” میں Ù†Û’ سوچاشایداس Ù†Û’ پاگل پن کابہروپ بھر رکھا ہے اور وہ اس اندازسے اپنا گھٹیا کام کر تاچلا آرہا ہے ۔مجھ سے رہانہ گیاتو میں Ù†Û’ پوچھا
    ’’تم بیچتے ہویہ سب چیزیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    وہ پھرکھلکھلا کر ہنسا اور اُسی اندازسے اپنے ایک ہاتھ پر دوسراہاتھ مارا۔ ۔ ۔ کہنے لگا
    ’’میں کہاں بیچتا ہوں Û” Û” Û” چودھری صاØ+ب، راناصاØ+ب، میاں صاØ+ب اور شیخ صاØ+ب بیچتے ہیں ‘‘
    ’’کیاوہ خودبیچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    â€™â€™Ø¨Ú¾Ù„Ø§Ø®ÙˆØ¯Ú©ÛŒÙˆÚ Ø¨ÛŒÚ†ÛŒÚº Ú¯Û’ ؟کیاوہ شرفانہیں ہیں ؟‘‘
    ’’تو کون بیچتا ہے پھر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    ’’پیپا۔ ۔ ۔ لاٹو۔ ۔ ۔ سوہنا۔ ۔ ۔ مندری۔ ۔ ۔ بجنس۔ ۔ ۔ کارتوس۔ ۔ ۔ ‘‘
    وہ خاموش ہوتا ہے اور پھر ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے مجھے سننا چاہتا ہو۔ میں پھر اُس سے سوال کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    ’’تم کیابیچتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
    ’’میں ۔ ۔ ۔ میں تو آئینے بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ آنکھیں بیچتا ہوں اور آنکھوں کے موتی بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیرے بیچتا ہوں ۔‘‘
    Last edited by Arslan; 06-08-2012 at 01:50 AM.





    تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
    کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا

  2. #2
    *resham*'s Avatar
    *resham* is offline بابا کی گڑیا
    Join Date
    Mar 2010
    Location
    ممہ کہ دل میں
    Posts
    40,298
    Mentioned
    32 Post(s)
    Tagged
    4710 Thread(s)
    Rep Power
    21474891

    Default Re: Herroo kaa soodagarr

    Xberdast......

  3. #3
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Herroo kaa soodagarr

    Bohot Hi Dil Ko Choo Jaane Waali Sharing Hai
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •