مرگِ سوز محبت

آؤ کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم
آؤ کہ حسنِ ماہ سے دل کو جلائیں ہم

خوش ہوں فراقِ قامت و رخسارِ یار سے
سرو گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم

ویرانیِ حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم

پھر اوٹ لے کے دامنِ ابرِ بہار کی
دل کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم

سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں ، نہ جائیں کہ جائیں ہم

پھر دل کو پاسِ ضبط کی تلقین کر چکیں
اور امتحانِ ضبط سے پھر جی چرائیں ہم

آؤ کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم

(فیض احمد فیض کے مجموعہ "نسخہ ھائے وفا" سے)