عجب جنونِ مسافت میں گھر سے نکلا تھا
خبر نہیں کہ سورج کدھر سے نکلا تھا

یہ کون پھر سے انہی راستوں میں چھوڑ گیا
ابھی ابھی تو عذابِ سفر سے نکلا تھا

یہ تیر دل میں مگر بے سبب نہیں اترا
کوئی تو حرف لبِ چارہ گر سے نکلا تھا

یہ اب جو آگ بنا شہر شہر پھیلا ھے
یہی دھواں مرے در ودیوار سے نکلا تھا

مٰیں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا
کہ دل کا زہر مری چشمِ تر سے نکلا تھا

یہ اب جو سر ھیں خمیدہ کلاہ کی خاطر
یہ عیب بھی تو ہم اہل ہنر سے نکلا تھا

وہ قیس اب جسے مجنوں پکارتے ھیں فراز
تری طرح کوئی دیوانہ گھر سے نکلا تھا
(احمد فراز)