لوگ لے لیتے ہیں یونہی شمع پروانے کا نام
کچھ نہیں ہے اس جہاں میں غم کے افسانے کا نام
مٹ گئی بربادیء دل کی شکایت دوستو
اب گلستاں رکھ لیا ہے میں نے ویرانے کا نام
شوخیء قدِ نگاراں میری صہبا کا وجود
مستیء چشمِ غزالاں میرے پیمانے کا نام
اس کو کہتے ہیں غم تقدیر کی نیلام گاہ
ہے زبان تشنگی میں اور میخانے کا نام
دیکھئیے ! ساغر کی آشفتہ نگاہی کا کمال
مستیاں چھلکا رہا ہے ایک دیوانے کا نام
ساغر صدیقی