Nice
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی
یہ آنکھوں سے چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گُھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے . . . . . تو پھر آخر ہمیں
اس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سُلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے مونہہ کو لاتی ہے نہ فاقوں سے ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی ہے نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب ایسی محبت ہے فقط دعویٰ سُجھاتی ہے
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چُپ کے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے. . .قُدس سے آنکھیں چُراتی ہے
ہم اپنے دعوٰئےحق ِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کُوندیں
صدا آئی
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
!!!محبت کی حقیقت کو
تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا
v nice