اس روتی ہوئی لڑکی نے کہا
تم پتھر ہو
تم پاپی ہو
تم ظُلم نگر کے باسی ہو
خاروں کے یہ سندیسے تم نے
بھیجے تو ہاتھ نگار ہوئے
آنکھوں سے لہو کی بوندوں نے
گر گر کر بھگویا آنچل کو
ہم خواب نگر کے باسی تھے
اب اندھیاروں کی خاک ہوئے
وہ پتھر ہنس کر بول اُٹھا
پگلی لڑکی !تم کیا جانو
ہم مرد عجب مٹی سے بنے
کیا بتلائیں
ہم کھیل کھلونوں کے عادی
نِت رنگوں کے ہم متلاشی
جب کھیلتے ہیں تو کھیلتے ہیں
ہم حسن کو باتوں میں گھیریں
اور گھیر ہی لیں
ہم عشق کا تیر چلاتے ہیں ۔۔تڑپاتے ہیں
اور بعد میں گھائل پنچھی کو
روتا چھوڑ کے آتے ہیں
سچ پوچھو تو
عورت کی دو ہی صورتیں ہیں
اک گھر والی۔۔۔ اک باہر کی
گھر والی ایک رومال سی ہے
باہر کی ۔۔۔ چھوڑو جانے دو
تم جانتی ہو کہ تم کیا ہو؟
رو رو کے اپنی آنکھوں کا
تم ایسے مت نقصان کرو
مت جی اپنا ہلکان کرو
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
اب ان اشکوں کو پوچھ بھی لو
یہ ٹشو پیپر رکھ لو تم