دُوریوں میں قربت ہو، قربتوں میں دُوری ہو
ابر بھی برس جائے ، پیاس بھی نہ پُوری ہو
یُوں تو بے نیازانہ عمر کاٹئیے لیکن
اس گھڑی نہ چُپ رہئیے جب گِلہ ضُروری ہو
اُس سے ہمکلامی کا لُطف اور ہی کچھ ہے
مُدعا بیاں ہوجائے، بات بھی نہ پُوری ہو
سب حِجاب اٹھ کر بھی کچھ حجاب رہ جائیں
خامشی کے پردے میں گفتگو ادھُوری ہو
بے خلش گزر جائے، عمر کارِ دنیا میں
آپ اپنی خِلوت سے اس قدر نہ دُوری ہو
بے کلی سِوا رکھئیے جانے اس طرف سے کب
اذن ہم کلامی ہو، ساعت حضوری ہو