جدید تحقیق کچھ یوں کہتی ہے: فرانس اور امریکہ کے محققین یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ بڑے پتھر جو فرعون نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے استعمال کیے صرف گارا تھا جسکو بہت زیادہ حرارت پر پکایا گیا تھا۔
اہرام مصر جن کو دنیا کا ساتواں عجوبہ کہا جاتا ہے کیا سائنسدان اس معمہ کے متعلق جان سکے ہیں کہ قدیم مصر میں+اہرام کیسے تعمیر کیے گئے؟ کیا کچھ لوگ آج بھی یہ مانتے ہیں کہ اہرام کو جنات نے تعمیر کیا؟ کیا یہ مان لینا چاہیے کہ باہر کی مخلوق نے اہرام مصر کو تعمیر کیا۔
یہ سوچ پوری دنیا میں کافی عرصہ سے چھائی ہوئی تھی لیکن فرانسیسی اور امریکی سائنسدانوں کی جدید تحقیق اس سوچ کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دے گی اور یہ اہرام کی تعمیر کے بھید کی ایک سادہ سی سائنسی وضاحت بیان کرے گی۔
لیکن عجیب یہ بھید اور راز قرآن میں+ چودہ سو سال سے موجود ہے
یہ مانا جاتا تھا کہ فرعون نے پتھروں کو تراشا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمام پتھر بالکل یکساں اور ایک سطح میں ہوں اور ان کے درمیان کسی قسم کا فاصلہ تک موجود نہ ہو اور کہاں گیا وہ سازو سامان اور چھینیاں جو ان پتھروں کو تراشنے میں استعمال ہوئیں۔ یہ دریافت اس چیز کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ غلط تھا جو سائنسدانوں نے کہا کہ اہرام پتھروں سے تعمیر کیے گئے تھے۔ قریب ترین جواب جو منطق اور سچائی کے قریب ترین ہو سکتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ فرعون کا تمدن گارے پر تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ اہرام مصر کی تصویر ہے جو کبھی بلند ترین عمارت تھی اور اسکی اونچائی 142 میٹر ہے۔ لاکھوں پتھر اسکی تعمیر میں استعمال کیے گئے اور ہر ایک پتھر کا وزن کتنے ہی ٹن ہے اور یہ بہت ہی عظیم ترین کام ہے جو فرعون کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے جو 4500 سال پہلے اسکے پاس تھی۔
نئی سائنسی حقیقتیں
سائنسی حقیقتوں میں ایک حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی تک اہرام مصر کی عمارت دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ نیا نظریہ فرانسیس ڈاکٹر جوزیف ڈیو یڈو یٹس نے پیش کیا جو ارضیاتی علوم کے ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ اہرام کو گارے سے تعمیر کیا گیا اور اس سے بنے ہوئے پتھروں کو منتقل کرنے کے لیے خصوصی ریلوے کا نظام استعمال کیا گیا۔
تحقیق بتاتی ہے کہ مٹی وغیرہ دریائے نیل سے حاصل کی گئی۔ اور اس مٹی کو پتھر کے مضبوط سانچوں میں ڈالا گیا اور پھر ان کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر پکایا گیا اور ان کے باہمی عمل سے یہ پتھروں میں تبدیل ہو گئے جیسا کہ آتش فشاں پہاڑ سے نکلے ہوئے پتھر جو لاکھوں سال پہلے بنے تھے ان پر خاص قسم کی ماہرانہ انجئنرنگ کے تجربات کیے گئے
Nanotechnology
یہ ٹیکنالوجی کسی چیز کے سائز سے 100 گنا چھوٹی چیز کا مشاہدہ کرتی ہے) اور ان تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ ان چٹانوں میں پانی کی ایک بڑی مقدار موجود تھی اور اتنی بڑی مقدار عمومی طور پر قدرتی پتھروں میں نہیں پائی جاتی۔
مزید پتھروں کےاندرونی ڈھانچے کا ربط اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ بے مقصد اور بے وجہ دکھائی دیتا ہے کہ پہلے پتھروں کو لایا گیااور پھر ان کو تراشا گیا اور حقیقت میں اس کا امکان موجود ہے کہ مٹی کے گارے کو سانچوں میں+ ڈالا گیا تا کہ وہ ایک شکل اور سائز کے پتھر بن جائیں ، بالکل اسی طرح جیسے ہم پلاسٹک کے کھلونے وغیرہ بناتے ہیں تاکہ تمام حصے ایک جیسے اور سیدھے رہیں۔
الیکٹرونک خوردبین استعمال کی گئی تاکہ اہرام میں+ استعمال ہوئے پتھروں کا تجزیہ کیا جا سکے۔ اور نتیجہ پروفیسر ڈایوڈوفیٹس کی سوچ کے مطابق تھا اور پتھر کے نمونے بالکل ویسے تھے جو پکائے ہوئے گارے کے ہوتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر ہمارے پتھر ایسے نہیں ہوتے اور یہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان پتھروں کو فرعون نے بنایا اور تجزیہ جو ایک چھوٹے الیکٹرانک وزن کرنے والی مشین
( mini E Scale )
سے کیا گیا، اسکی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسمیں سلیکون ڈائی آکسائڈ بھی موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پتھر قدرتی نہیں۔
سائنسی حقیقت قرآن مجید کے مطابق
ان تمام حقائق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں جو یہ ہے: فرعون کے زمانے میں اتنی بڑی عمارتیں جیسا کہ اہرام کو تعمیر کرنے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا، کافی حد تک اسمیں گارے کو استعمال کیا گیا جو نزدیک میں واقع دریائے نیل سے لایا گیا۔ پھر اس میں پانی ملایا گیا اور ان کو سانچوں میں ڈال دیا گیا اور آخر میں انکو آگ میں پکایا گیا جب تک کہ انہوں نے پتھر کی شکل نہ لے لی، جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں۔
یہ مہارت 1981 تک ایک چھپا ہوا راز تھا۔ پھر اس سائینسدان نے اپنا نظریہ پیش کیا۔ پھر ایک اور سائنسدان نے اس نظریے کی صلاحیت کو ثابت کیا۔ بغیر کسی شک و شبہات تجربہ گاہ میں تجزیے کیے گئے۔ آئیے قرآن کی اس آیت پر غور کریں جب فرعون ظالم اور جابر حکمران بن گیا اور فرعون نے اپنے آپ کو مصر کا خدا ہونے کا دعوٰی کیا۔ تو فرعون نے اپنے لوگوں سے کیا کہا، آیے غور کرتے ہیں
وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلۡمَلَأُ مَا عَلِمۡتُ لَڪُم مِّنۡ إِلَـٰهٍ غَيۡرِى
سُوۡرَةُ القَصَص
اور فرعون نے کہا، اے اہل دربار میں+اپنے سوا کسی کو تمھارا خدا نہیں جانتا
فرعون کا چیلنج اور تکبر اس حد تک چلا گیا، وہ اللہ تعالٰی کی طاقت کو للکارنا چاہتا تھا، اور ایک بڑا مینارہ تعمیر کروانا چاہتا تھا۔ تاکہ اس پر چڑھ کر یہ دیکھ سکے کہ اللہ تعالیٰ کون ہیں۔ اس لیے فرعون اپنے لوگوں کے سامنے جو اس کو پسند کرتے تھے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ نعوذباللہ حضرت موسٰی علیہ السلام ایماندار نہیں اور فرعون اس کائنات کا حقیقی رب ہے۔ فرعون نے ہامان کو کہا جو اس کا نائب اور شریک کار تھا کہ ایک بہت بڑا مینار تعمیر کرے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ ثابت کیا جا سکے کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں۔فرعون نے تعمیر کے لیے اس وقت یہ مہارت استعمال کی کہ مطلوبہ پتھروں کو آگ پر پکایا جائے جو اس مینار کی تعمیر کے لیے درکار تھے۔ اسکے بعد فرعون نے کچھ یوں کہا
فَأَوۡقِدۡ لِى يَـٰهَـٰمَـٰنُ عَلَى ٱلطِّينِ فَٱجۡعَل لِّى صَرۡحً۬ا لَّعَلِّىٓ أَطَّلِعُ إِلَىٰٓ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّى لَأَظُنُّهُ ۥ مِنَ ٱلۡكَـٰذِبِينَ
٣٨ سُوۡرَةُ القَصَص
سن اے ہامان، تو میرے لیے مٹی کو آگ پر پکوا پھر میرے لیے ایک محل تعمیر کر تو میں موسٰی کے معبود کو جھانک لوں۔اسے تو میں جھوٹوں میں ہی گمان کر رہا ہوں
۔
لیکن نتیجہ کیا نکلا، دیکھیں اور سوچیں فرعون کا انجام کیا ہوا۔ ہامان اور اسکے فوجی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَٱسۡتَكۡبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ ۥ فِى ٱلۡأَرۡضِ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُمۡ إِلَيۡنَا لَا يُرۡجَعُونَ
(٣٩)
فَأَخَذۡنَـٰهُ وَجُنُودَهُ ۥ فَنَبَذۡنَـٰهُمۡ فِى ٱلۡيَمِّ+ۖ فَٱنظُرۡ كَيۡفَ ڪَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلظَّـٰلِمِينَ
٤٠ سُوۡرَةُ القَصَص
اور وہ اور اسکے لشکر ملک میں ناحق مغرور ہو رہے تھے۔ اورخیال کرتے تھے کہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔تو ہم نے اسے اور اسکے لشکروں کو پکڑ لیا اور آخر ہم نے انہیں سمندر میں+ پھینک دیا سو دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مینار یہی اہرام ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکثر ایسا نہیں، کیونکہ مینار اونچا ہوتا ہے جیسے کوئی برج یا ٹاور یا لائٹ ہاؤس، جو اونچا بنایا جاتا ہے، تاکہ بلندی پر چڑھا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ+نے فرعون کو سزا دی اور اسے تباہ و برباد کر دیا اور اسکے مینار کو بھی تباہ و برباد کر دیا تاکہ یہ آیت بعد میں آنے والوں کے لیے رہے۔ وہ مینار جو اس نے اللہ تعالیٰ کو للکارنے کے لیے بنایا تباہ کر دیا گیا اور ہمیں وہ کسی جگہ نہیں ملتا۔