اجنبی شخص نے چپکے سے جو کھولیں آنکھیں
میں نے دیکھا کہ در و بام پہ بولیں آنکھیں
میں نے کل رات جو اشکوں سے بھگو لیں آنکھیں
بارِ تصویر سے ہر سانس پہ ڈولیں آنکھیں
برف گرتی رہی پلکوں پہ ہماری شب بھر
صبح دونوں نے کسی خوف میں دھو لیں آنکھیں
شدتِ غم میں جو گزری ہے کوئی کیا جانے
کبھی جاگیں کبھی روئیں، کبھی سو لیں آنکھیں
درد کِھلتا رہا یادوں کے کنول کی صورت
میں نے بچپن میں کبھی دل میں جو بَو لیں آنکھیں
میں نے سوچا تھا کہ تحفہ تجھے دُوں گا کوئی
جب بھی دیکھا کوئی تجھ سا تو پرَو لیں آنکھیں
رتجگے میں نے بھی کاٹے ہیں دعائیں لے کر
ہاتھ آیا نہیں کچھ بھی، یونہی رولیں آنکھیں
سعد سودائے محبت بھی ہے اندھا جس نے
خواب عمروں کے دیئے اور یہ دو لیں آنکھیں
سعد اللہ شاہ