آج دریا ، چڑھا چڑھا سا ہے
کوئی ہم سے خفا خفا سا ہے

جسم جیسے بھرا بھرا ساغر
گفتگو میں نشہ نشہ سا ہے

ناک نقشہ بس آپ ہی جیسا
نام بھی کچھ بھلا بھلا سا ہے

شہر یادوں کا اک بسایا تھا
اب نشاں بھی مٹا مٹا سا ہے

دل سے اک روشنی جہاں میں تھی
یہ دیا بھی بجھا بجھا سا ہے

باغ ہے ایک پھول لاکھوں ہیں
رنگ سب کا جدا جدا سا ہے

شبنمی آگ بھی جلاتی ہے
پھول کا دل جلا جلا سا ہے

کس کو فرصت کہ اک نظر دیکھے
بدؔر، تنہا بجھا بجھا سا ہے

بشیر بدر