خوشبو کو تتلیوں کے پروں میں چھپاؤں گا
پھر نیلے نیلے بادلوں میں لوٹ جاؤں گا

دیوانہ وار مجھ سے لپٹ جائے گی ہوا
میں سرخ سرخ پھولوں میں جب مسکراؤں گا

سونے کے پھول پتے گریں گے زمیں پر
میں زرد زرد شاخوں پہ جب گنگناؤں گا

یہ لکڑیاں جو خشک ہیں بے برگ و بار ہیں
ان کو میں اپنی آگ جلنا سکھاؤں گا

دینار خوب برسیں گے آنگن میں ساری رات
میں خواب کے شجر کی وہ شاخیں ہلاؤں گا

دُھل جائیں گی بدن پہ جمی دھوپ کی تہیں
اپنے لہو میں آج میں ایسا نہاؤں گا

اک پل Ú©ÛŒ زندگی مجھے بے Ø+د عزیز ہے
پلکوں پہ جھلملاؤں گا اور ٹوٹ جاؤں گا

یہ رات بھر نہ آئے گی بادل برسنے دے
میں جانتا ہوں صبØ+ تجھے بھول جاؤں گا

اس دن بجائے اوس کے ٹپکے گا سُرخ خُون
تلوار لے کے جب میں خلاؤں میں جاؤں گا

جب رات کے سپرد مجھے کرنے آؤ گے
رومال روشنی کا ہوا میں اُڑاؤں گا

آنگن میں ننھے ننھے فرشتے لڑیں گے
بھوری شفیق آنکھوں میں میں مسکراؤں گا



ڈاکٹر بشیر بدر