تری یاد میں کبھی ہم یونہی بے قرار ہوتے
شب وصل تو نہ آتا ترے انتظار ہوتے
انہی منزلوں کی جانب کبھی پھر قدم بڑھاتے
وہی رہگزار ہوتی وہی خارزار ہوتے
یہی بات ہم نے سوچی تری بزم سے نکل کے
تری گفتگو میں ہوتے بھلے ایک بار ہوتے
شب ہجر کاٹ لینی ہمیں جب سے آ گئی ہے
غلطاں ترے جنوں میں نہیں بار بار ہوتے
ہم اسے سنبھال لیتے نہیں ایسے جانے دتے
مرے دل پہ کاش مجھ کو کوئی اختیار ہوتے
نئے زخم اس قدر جب مری روح پر لگے ہیں
وہ جو داغ تھے پرانے بھلا کس شمار ہوتے
انہیں کیا خبر سمن کہ تری جان پہ سخت بیتی
جو وہ تیرے پاس ہوتے ترے غم گسار ہوتے
(سیدہ سمن الخوارزمی)