گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو
کوئی وجود Ù…Ø+بّت کا استعارہ ہو
میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں
جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو
کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ،کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
قصور ہو تو ہمارے Ø+ساب میں Ù„Ú©Ú¾ جائے
Ù…Ø+بتوں میں جو اØ+سان ہو ØŒ تمھارا ہو
یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا
کہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو
اُفق تو کیا ہے،درِ کہکشاں بھی چُھو آئیں
مُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہو
میں اپنے Ø+صے Ú©Û’ سُکھ جس Ú©Û’ نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرØ+ کا پیارا ہو
اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے
میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو

(Parveen Shakir)