اجڑ اجڑ کے سنورتی ھے تیرے ہجر کی شام
پوچھ کیسے گزرتی ھے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رھی ھے میری
کہ شاخ شاخ اترتی ھے تیرے ہجر کی شام

اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ھے؟
سوال مجھ سے یہ کرتی ھے تیرے ہجر کی شام

میرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ھے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ھے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ھیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ھے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل یہ سراسر نگار خانہ غم
سدا اسی میں اتری ھے تیرے ہجر کی شام

جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کی نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ھے تیرے ہجر کی شام

یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ھی مرتی ھے تیرے ہجر کا شام

محسن نقوی