آزادی اکیلے آدمی کا سفر ہے، رسی تڑوا کر سرپٹ بھاگنے کا عمل ہے۔ محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے کی صلاحیت ہے۔ محبت اس غلامی کا طوق ہے جو انسان خود اپنے اختیار سے گلے میں ڈالتا ہے۔ یہ عہد پیری مریدی کا نہیں کہ مرشد منوائے اور سالک ماننے کے مقام پر ہو۔ یہ زمانہ شادی کا بھی نہیں کہ شادی میں بھی قدم قدم پر اپنی مرضی کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ حضرت ابراھیم جس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے پر راضی بر رضا رہے، یہ محبت کی عظیم مثال ہے۔
محبت میں ذاتی آزادی کو طلب کرنا "شرک" ہے، کیوں کہ بیک وقت دو افراد سے محبت نہیں کی جا سکتی، محبوب سے بھی اور اپنے آپ سے بھی۔ محبت غلامی کا عمل ہے اور آزاد لوگ غلام نہیں رہ سکتے۔

بانو قدسیہ کے ناول حاصل گھاٹ سے اقتباس