طلسم عشق تھا سب اس کا سات ھونے تک

خیال درد نہ آیا نجات ھونے تک


ملا تھا ہجر Ú©Û’ رستے میں صبØ+ Ú©ÛŒ مانند


بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ھونے تک


عجیب رنگ بدلتی ھے اس کی نگری بھی


ھر ایک نہر کو دیکھا فرات ھونے تک


وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی


میں اپنی فتØ+ سمجھتا تھا مات ھونے تک



میں اس کو بھولنا چاھوں تو کیا کروں عادل

جو مجھ میں زندہ ھے خود میری ذات ھونے تک


تاجدار عادل