جب میں آخری سیڑھی Ú†Ú‘Ú¾ کر Ø¯Ø±Ú¯Ø§Û Ú©Û’ صØ+Ù† میں Ù¾Ûنچا تو پسینے سے شرابور اور Ûانپ رÛا تھا۔ ÙˆÛاں خاصے زاÛرین موجود تھے، جو اپنے طور پر اپنی منتوں Ú©ÛŒ قبولیت Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ú©Ú†Ú¾ تدبیر کر رÛÛ’ تھے۔ کوئی پھولوں Ú©ÛŒ چادر چڑھا رÛا تھا، تو کوئی لنگر خانے میں دیگیں کھلوائے بھوکوں Ú©Ùˆ کھانا کھلا رÛا تھا۔ ایک جانب ایک Ø+اجی صاØ+ب دودھ میں زعÙران اور روØ+اÙزاء گھولے اپنی سبیل چلا رÛÛ’ تھے۔ ایک جانب چند اÙراد مورچھل لیے Ø¯Ø±Ú¯Ø§Û Ú©Û’ اندرونی Ø+صے Ú©ÛŒ صÙائی کر رÛÛ’ تھے۔ مجھے ایک لمØ+Û’ Ú©Ùˆ یوں لگا Ú©Û Ø¬ÛŒØ³Û’ جس کا Ú¯Ù†Ø§Û Ø¬ØªÙ†Ø§ بڑا ÛÛ’ ÙˆÛ Ø§Ø³ÛŒ Ø+ساب سے Ú©ÙØ§Ø±Û Ø§Ø¯Ø§ کرنے Ú©ÛŒ سعی میں لگا Ûوا یے۔ لیکن کیا ÛŒÛ Ø³Ø¨ Ú©Ú†Ú¾ کرنے سے ÛÙ… انسانوں Ú©ÛŒ منتیں پوری ÛÙˆ جاتی ÛÙˆÚº Ú¯ÛŒ......ØŸ Ú©Ùارے ادا ÛÙˆ جاتے ÛÙˆÚº Ú¯Û’......ØŸ
(اقتباس: Ûاشم ندیم Ú©Û’ ناول "عبداللÛ" Ú©Û’ باب "Ø¯Ø±Ú¯Ø§Û (1)" سے