جب میں آخری سیڑھی Ú†Ú‘Ú¾ کر درگاہ Ú©Û’ صØ+Ù† میں پہنچا تو پسینے سے شرابور اور ہانپ رہا تھا۔ وہاں خاصے زاہرین موجود تھے، جو اپنے طور پر اپنی منتوں Ú©ÛŒ قبولیت Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ نہ Ú©Ú†Ú¾ تدبیر کر رہے تھے۔ کوئی پھولوں Ú©ÛŒ چادر چڑھا رہا تھا، تو کوئی لنگر خانے میں دیگیں کھلوائے بھوکوں Ú©Ùˆ کھانا کھلا رہا تھا۔ ایک جانب ایک Ø+اجی صاØ+ب دودھ میں زعفران اور روØ+افزاء گھولے اپنی سبیل چلا رہے تھے۔ ایک جانب چند افراد مورچھل لیے درگاہ Ú©Û’ اندرونی Ø+صے Ú©ÛŒ صفائی کر رہے تھے۔ مجھے ایک لمØ+Û’ Ú©Ùˆ یوں لگا کہ جیسے جس کا گناہ جتنا بڑا ہے وہ اسی Ø+ساب سے کفارہ ادا کرنے Ú©ÛŒ سعی میں لگا ہوا یے۔ لیکن کیا یہ سب Ú©Ú†Ú¾ کرنے سے ہم انسانوں Ú©ÛŒ منتیں پوری ہو جاتی ہوں Ú¯ÛŒ......ØŸ کفارے ادا ہو جاتے ہوں Ú¯Û’......ØŸ


(اقتباس: ہاشم ندیم کے ناول "عبداللہ" کے باب "درگاہ (1)" سے