گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي سزا اور اس کا انجام
قرآني نصوص ، احاديث مبارکہ ، عمل صحابہ رضوان اللہ عليہم اجمعين ، فتاويٰ ائمہ اور اجماع امت سے يہ بات روز روشن کي طرح واضح اور عياں ہے کہ گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي سزا قتل ہے اس کي معافي کو قبول نہ کيا جائے ۔ لہٰذا مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہيے کہ ان کے اس منافقانہ طرز عمل سے متاثر ہونے کے بجائے ايک غيور مسلمان کا موقف اختيار کريں ۔ جس کا نقشہ اس رسالے کے اگلے صفحات قارئين کے سامنے پيش کر رہے ہيں ۔
يہود و نصاريٰ شروع دن سے ہي شان اقدس ميں نازيبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہيں ۔ کبھي يہوديہ عورتوں نے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں ديں ، کبھي مردوں نے گستاخانہ قصيدے کہے ۔ کبھي آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو ميں اشعار پڑھے اور کبھي نازيبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے شان نبوت ميں گستاخي کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا ديا ۔ کبھي صحابہ رضوان اللہ عليہم اجمعين کو حکم دے کر اور کبھي انہيں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھي کسي صحابي رضي اللہ عنہ نے حب نبي صلي اللہ عليہ وسلم ميں خود گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے جگر کو چير ديا اور کسي نے نذر مان لي کہ گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھي کسي نے يہ عزم کر ليا کہ خود زندہ رہوں گا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا گستاخ ۔ اور کبھي کسي نے تمام رشتہ داريوں کو ايک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کو خود ديکھنے کے لئے گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم اور يہوديوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ ديا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کي تلواروں سے بچے رہے اللہ تعاليٰ نے انہيں کن عذابوں ميں مبتلا کيا اور کس رسوائي کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھينک ديا تا کہ دنيا کيلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا انجام کيا ہے انہيں تمام روايات و واقعات کو اپنے دامن ميں سميٹے ہوئے يہ اوراق اپنوں اور بيگانوں کو پيغام دے رہے ہيں کہ کبھي آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ذات اور بات کا حليہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حليہ بگاڑنے سے امام الانبياءعليہما لسلام کي شان اقدس ميں تو کوئي فرق نہيں پڑے گا ۔ آپ اپني دنيا و آخرت تباہ کر بيٹھو گے ۔ رسوائي مقدر بن جائے گي ۔
جيسا کہ قرآن مجيد ميں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو تکليف دينے والوں کے بارے ميں ارشاد فرما رہے ہيں ۔
(( ان الذين يوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ في الدنيا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھينا ))
( 33/احزاب 57 )
” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو تکليف ديتے ہيں اللہ تعاليٰ کي طرف سے دنيا و آخرت ميں ان پر لعنت ہے اور ان کيلئے ذليل کرنے والا عذاب تيار کر رکھا ہے ۔ “
آئيے گستاخان رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا انجام ديکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين کے اسي حوالے سے کارہائے نماياں ملاحظہ فرمائيے اور اسي بارے ميں ائمہ سلف کے فرامين و فتاويٰ بھي پڑھئے پھر فيصلہ فرمائيے کہ ان حالات ميں عالم اسلام کي کيا ذمہ داري ہے ۔
يہوديہ عورت کا قتل
چنانچہ حضرت علي رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ
(( ان يھوديۃ کانت تشتم النبي صلي اللہ عليہ وسلم وتقع فيہ ، فخنقھا رجل حتي ماتت ، فاطل رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم دمھا ))
( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فيمن سب النبي صلي اللہ عليہ وسلم )
ايک يہوديہ عورت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں ديا کرتي تھي ايک آدمي نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر ديا تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کے خون کو رائيگاں قرار دے ديا ۔
گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم ام ولد کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہ کا بيان ہے کہ
ايک اندھے شخص کي ايک ام ولد لونڈي تھي جو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں ديا کرتي تھي وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالياں دينے سے باز نہيں آتي تھي وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتي تھي ايک رات اس عورت نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں دينا شروع کيں اس نے ايک بھالا لے کر اس کے پيٹ ميں پيوست کر ديا اور اسے زور سے دبا ديا جس سے وہ مر گئي ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس کيا گيا تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمايا ۔ ميں اس آدمي کو قسم ديتا ہوں جس نے کيا ۔ جو کچھ کيا ۔ ميرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي يہ بات سن کر ايک نابينا آدمي کھڑا ہو گيا ۔ اضطراب کي کيفيت ميں لوگوں کي گردنيں پھلانگتا ہوا آيا اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے بيٹھ گيا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم ميں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں دينے سے باز نہيں آتي تھي ۔ ميں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کي پرواہ نہيں کرتي تھي اس کے بطن سے ميرے دو ہيروں جيسے بيٹے ہيں اور وہ ميري رفيقہ حيات تھي گزشتہ رات جب وہ آپکو گالياں دينے لگي تو ميں نے بھالا لے کر اس کے پيٹ ميں پيوست کر ديا ميں نے زور سے اسے دبايا يہاں تک کہ وہ مر گئي ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے ساري گفتگو سننے کے بعد فرمايا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔
( ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فيمن سب النبي صلي اللہ عليہ وسلم ، نسائي ، تحريم الدم ، باب الحکم فيمن سب النبي صلي اللہ عليہ وسلم )
گستاخ نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ عليہم اجمعين کا حکم
حضرت علي رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ
(( قال رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم من سب نبيا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد ))
( رواہ الطبراني الصغير صفحہ 236 جلد 1 )
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو گالي دي اسے قتل کيا جائے اور جس نے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے صحابہ کو گالي دي اسے کوڑے مارے جائيں ۔
حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ عنہ کا فتويٰ
حضرت ابوبرزہ رضي اللہ عنہ کا بيان ہے کہ
(( کنت عند ابي بکر رضي اللہ عنہ ، فتغيظ عليٰ رجل ، فاشتد عليہ ، فقلت : ائذن لي يا خليفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتي غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الي فقال : ما الذي قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لي اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم ))
( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فيمن سب النبي صلي اللہ عليہ وسلم )
ميں حضرت ابوبکرصديق رضي اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسي شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھي جواباً بدکلامي کرنے لگا ۔ ميں نے عرض کيا ۔ اے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے خليفہ ۔ مجھے اجازت ديں ۔ ميں اس کي گردن اڑا دوں ۔ ميرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گيا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوايا اور فرمانے لگے ابھي تھوڑي دير پہلے آپ نے مجھے کيا کہا تھا ۔ ميں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضي اللہ عنہ مجھے اجازت ديں ميں اس گستاخ کي گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ عنہ فرمانے لگے اگر ميں تم کو حکم دے ديتا ۔ تو تم يہ کام کرتے ؟ ميں نے عرض کيا اگر آپ رضي اللہ عنہ حکم فرماتے تو ميں ضرور اس کي گردن اڑا ديتا ۔ آپ رضي اللہ عنہ نے فرمايا ۔ نہيں ۔ اللہ کي قسم ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد يہ کسي کے لئے نہيں کہ اس سے بدکلامي کرنے والے کي گردن اڑا دي جائے يعني رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي شان اقدس ميں گستاخي کرنے والے کي ہي گردن اڑائي جائے گي ۔
‘ عصماء بنت مروان کا قتل
اسي طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبي صلي اللہ عليہ وسلم فقال : ( من لي بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا يا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم ، فقال : ( لا ينتطح فيھا عنزان ))
( الصارم المسلول 129 )
” خَطمَہ “ قبيلے کي ايک عورت نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو کي ۔ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کي قوم کے ايک آدمي نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم ! يہ کام ميں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر ديا ۔ تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا دو بکرياں اس ميں سينگوں سے نہ ٹکرائيں يعني اس عورت کا خون رائيگاں ہے اور اس کے معاملے ميں کوئي دو آپس ميں نہ ٹکرائيں ۔ بعض مورخين نے اس کي تفصيل يوں بيان کي ہے ۔
عصماء بنت مروان بني اميہ بن زيد کے خاندان سے تھي وہ يزيد بن زيد بن حصن الخطمي کي بيوي تھي يہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو ايذاءو تکليف ديا کرتي ۔ اسلام ميں عيب نکالتي اور نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتي تھي ۔ عمير بن عدي الخطمي کو جب اس عورت کي ان باتوں اور اشتعال انگيزي کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ ميں تيري بارگاہ ميں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو بخير و عافيت مدينہ منورہ لوٹا ديا تو ميں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اس وقت بدر ميں تھے ۔ جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشريف لائے تو عمير بن عدي آدھي رات کے وقت اس عورت کے گھر ميں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ايک بچہ اس کے سينے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہي تھي ۔ عمير نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ يہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہي ہے ۔ عمير نے بچے کو اس سے الگ کر ديا ۔ پھر اپني تلوار کو اس کے سينے پر رکھ کر اسے زور سے دبايا کہ وہ تلوار اس کي پشت سے پار ہو گئي ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے ساتھ ادا کي جب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمير کي طرف ديکھ کر فرمايا کيا تم نے بنت مروان کو قتل کيا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جي ہاں ۔ ميرے ماں باپ آپ صلي اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم ۔
عمير کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہيں ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي مرضي کے خلاف تو قتل نہيں کيا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کيا اس معاملے کي وجہ سے مجھ پر کوئي چيز واجب ہے ؟ فرمايا دو بکرياں اس ميں سينگوں سے نہ ٹکرائيں ۔ پس يہ کلمہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے پہلي مرتبہ سنا گيا عمير رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے اردگرد ديکھا پھر فرمايا تم ايسے شخص کو ديکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي غيبي مدد کي ہے تو عمير بن عدي کو ديکھ لو ۔
( الصارم المسلول 130 )
’ابوعفک يہودي کا قتل :
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ مورخين کے حوالے سے شاتم رسول صلي اللہ عليہ وسلم ابوعفک يہودي کا قصہ بيان کرتے ہيں کہ
(( ان شيخا من بني عمرو بن عوف يقال لہ ابوعفک وکان شيخا کبيرا قد بلغ عشرين ومائۃ سنۃ حين قدم النبي صلي اللہ عليہ وسلم المدينۃ ، کان يحرض عليٰ عداوۃ النبي صلي اللہ عليہ وسلم ، ولم يدخل في الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم الي بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہ وبغي فقال ، وذکر قصيدۃ تتضمن ھجو النبي صلي اللہ عليہ وسلم وذم من اتبعہ ))
( الصارم المسلول 138 )
بني عمرو بن عوف کا ايک شيخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہايت بوڑھا آدمي تھا اس کي عمر 120 سال تھي جس وقت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ منورہ تشريف لائے ۔ تو يہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہيں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم بدر کي طرف نکلے غزوہ بدر ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو اللہ تعاليٰ نے کاميابي عطاءفرمائي تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر ديا اور بغاوت و سرکشي پر اتر آيا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کي مذمت ميں ہجو کرتے ہوئے ايک قصيدہ کہا ۔ اس قصيدے کو سن کر سالم بن عمير نے نذر مان لي کہ ميں ابوعفک کو قتل کروں گا يا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کي تلاش ميں تھا ۔ موسم گرما کي ايک رات ابوعفک قبيلہ بني عمرو بن عوف کے صحن ميں سويا ہوا تھا سالم بن عمير رضي اللہ عنہ اس کي طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دي جس سے وہ بستر پر چيخنے لگا ۔ لوگ اس کي طرف آئے جو اس کے اس قول ميں ہم خيال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر ميں دفن کر ديا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کيا ہے ؟ اللہ کي قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کيا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر ديں گے ۔
“ انس بن زنيم الديلمي کي گستاخي
انس بن زنيم الديلمي نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو کي اس کو قبيلہ خزاعہ کے ايک بچے نے سن ليا اس نے انس پر حملہ کر ديا انس نے اپنا زخم اپني قوم کو آ کر دکھايا ۔
واقدي نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعي قبيلہ خزاعہ کے چاليس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کيلئے گيا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کيا جو انہيں پيش آيا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم انس بن زنيم الديلمي نے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو کي ہے تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کے خون کو رائيگاں قرار ديا ۔
( الصارم المسلول139 )
” گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم ايک عورت
ايک عورت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالياں ديا کرتي تھي آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :
من يکفيني عدوي ” ميري دشمن کي خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن وليد رضي اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر ديا ۔ “
( الصارم المسلول163 )
مشرک گستاخ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں
(( ان رجلا من المشرکين شتم رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم ( من يکفيني عدوي ؟ ) فقام الزبير بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلمسلبہ ))
( الصارم المسلول : 177 )
” مشرکين ميں سے ايک آدمي نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو گالي دي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ميرے اس دشمن کي کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبير بن عوام رضي اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ميں حاضر ہوں حضرت زبير رضي اللہ عنہ نے اسے قتل کر ديا ۔ تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبير رضي اللہ عنہ کو دے ديا ۔ “
11 ۔ کعب بن اشرف يہودي کا قتل
کعب بن اشرف ايک سرمايا دار متعصب يہودي تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھي جب مدينہ منورہ ميں بدر کي فتح کي خوش خبري پہنچي ۔ تو کعب کو يہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر يہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہيں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کي تصديق ہو گي تو کعب بن اشرف مقتولين کي تعزيت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولين پر مرثےے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھي روتا اور دوسروں کو بھي رلاتا ۔
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدينہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقيہ اشعار کہنے شروع کر دئيے اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو ميں بھي اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کي ايذائيں ديتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دين بہتر ہے يا محمد صلي اللہ عليہ وسلم کا دين ۔ تو اس نے جواب ديا کہ تمہارا دين محمد صلي اللہ عليہ وسلم کے دين سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کي حرکات کي وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنايا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم بقيع کي قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندني رات تھي پھر فرمايا جاؤ ۔ اللہ تعاليٰ تمہاري مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضي اللہ عنہ کا بيان ہے کہ
(( قال رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذي اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا يا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لي ان اقول شيا ، قال : قل ))
( رواہ البخاري کتاب المغازي باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسير باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف اليھود )
” رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم ! کو تکليف دي ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضي اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کي ۔ اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم پسند کرتے ہيں کہ ميں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ۔ ہاں ۔ مجھ کو يہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کيا ۔ پھر آپ صلي اللہ عليہ وسلم مجھے کچھ کہنے کي اجازت دے ديں يعني ايسے مبہم کلمات اور ذومعنيٰ الفاظ جنہيں ميں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ۔ اجازت ہے ۔ “
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ يہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہميں تھکا مارا ہے اس لئے ميں تم سے قرض لينے آيا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھي آگے ديکھنا اللہ کي قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کي اتباع کر لي ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ ديکھ ليں اسے چھوڑنا مناسب نہيں ہے ۔ ميں تم سے ايک دو وسق غلہ قرض لينے آيا ہوں کعب نے کہا ۔ ميرے پاس کوئي چيز گروي رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کيا چيز چاہتے ہو ۔ کہ ميں گروي رکھ دوں ۔ کعب نے کہا ۔
اپني عورتوں کو گروي رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپني عورتيں کس طرح گروي رکھ سکتے ہيں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بيٹوں کو گروي رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بيٹوں کو گروي کس طرح رکھ سکتے ہيں ۔ کل انہيں اس پر ہر کوئي گالياں دے گا کہ آپ کو ايک دو وسق غلے کے عوض گروي رکھا گيا تھا ۔ يہ ہمارے لئے بڑي عار ہو گي البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروي رکھ سکتے ہيں جس پر کعب راضي ہو گيا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ ميں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسري دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھي تھے يہ کعب کے رضاعي بھائي تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دي ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کي بيوي نے کہا مجھے تو يہ آواز ايسي لگتي ہے جيسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب ديا کہ يہ تو محمد بن مسلمہ اور ميرے رضاعي بھائي ابونائلہ ہيں اگر شريف آدمي کو رات کے وقت بھي نيزہ بازي کيلئے بلايا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھي تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھيوں کو ہدايت کي تھي کہ جب کعب آئے تو ميں اس کے سر کے بال ہاتھ ميں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہيں اندازہ ہو جائے کہ ميں نے اس کا سر مضبوطي سے پکڑ ليا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آيا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ميں نے آج سے زيادہ عمدہ خوشبو کبھي نہيں سونگھي ۔ کعب نے کہا ۔ ميرے پاس عرب کي وہ عورت ہے جو عطر ميں ہر وقت بسي رہتي ہے اور حسن و جمال ميں بھي اس کي کوئي مثال نہيں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کيا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کي اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھيوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کي اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوري طرح سے اسے قابو کر ليا تو اپنے ساتھيوں کو اشارہ کيا کہ تيار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر ديا ۔
پھر رات کے آخري حصے ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئے ۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ديکھتے ہي فرمايا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائي اور کامياب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کيا ووجھک يا رسول اللہ سب سے پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کيا ہوا سر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے رکھ ديا تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعاليٰ کا شکر ادا کيا ۔
( فتح الباري 272/7 )