محبت کا یہ میری مرثیہ ہے
اسے افسانہ کیوں سمجھا گیا ہے

وہ جو تیرے حسن کا شیدا رہا ہے
وہ قصے ہجر کے لکھتا رہا ہے

نہیں جو مندمل اب تک ہوا ہے
اک ایسا زخم بحی دل کو لگا ہے

حسیں ہر شے بڑی دلکش فضا ہے
تمہارا شہر تو شہرسبا ہے

اسے ہر شخص شاہین جانتا ہے
خبر ٹی وی پر وہ پڑھتا رہا ہے

نہ ملنے کا بہانہ جانتے ہو
محبت کا سلیقہ آگیا ہے

اسے جب سے تیری قربت ملی ہے
بہت اچھی غزل کہنے لگا ہے

دیے جب فال کے پیسے زیادہ
مناسب حال طوطا بولتا ہے

مجھے کیوں انتظار اس کا ہے بہت
جو خط مجھ کو نہیں لکھا گیا ہے

وہ مجھ کواور بلاے پاس اپنے
سماعت کا مجھے دھوکا ہوا ہے