داغ دھلوی کی میری پسندیدہ ترین غزل:


لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے،
رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے،

جو زمانے کے ستم ہیں، وہ زمانہ جانے،
تُو نے دل اتنے دُکھائے ہیں کہ جی جانتا ہے،

مُسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ،
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے،

سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی،
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے،

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز،
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے،

دوستی میں تری درپردہ ہمارا دُشمن،
اِس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے،

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کُوچے سے،
اِس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے،