-
Hadees of the DAY.
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ اسیرِحسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو منفرد اعزاز عطا ہوا اس کا مظاہرہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا سفیر بنا کر مکہ معظمہ بھیجا کہ کفار و مشرکین سے مذاکرات کریں۔ کفار نے پابندی لگا دی تھی کہ اس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ رسول بن کر مذاکرات کے لئے حرمِ کعبہ پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس سال آپ لوگ حج نہیں کر سکتے، تاہم کفارِ مکہ نے بزعم خویش رواداری برتتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ چونکہ تم آگئے ہو، اس لئے حاضری کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اگر چاہو تو ہم تمہیں طواف کی اجازت دیتے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے کفار کی اس پیشکش کو بڑی شان بے نیازی سے ٹھکرا دیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کرنا انہیں گوارا نہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا :
ما کنتُ لأطوف به حتی يطوف به رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 2221
طبري، تفسير، 26 : 986
ابن کثير، تفسير، 4 : 187
’’میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کروں گا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل سے دشمنانِ اسلام کو جتلا دیا کہ ہم کعبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر کعبہ مانتے ہیں اور اس کا طواف بھی اس لئے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کعبے سے اپنی جذباتی وابستگی اور عقیدت کو اہمیت نہ دی حالانکہ اس کے دیدار کے لئے وہ مدت سے ترس رہے تھے اور ہجرت کے چھ سات سال بعد انہیں یہ پہلا موقع مل رہا تھا۔
اگر وہ طواف کر بھی لیتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہیں کیا تھا لیکن ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی جس کے بغیر وہ کسی عمل کو کوئی وقعت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہی نسبت ان کے ایمان کی بنیاد تھی۔
حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشقی خودسپردگی اور وارفتگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ کتبِ احادیث میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر گوشت کا لقمہ تناول کرنے لگے۔
لوگوں نے پوچھا : حضرت! یہ دروازہ گزرگاہِ عام ہے، یہاں بیٹھ کر کھانا چہ معنی دارد؟ دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواب میں فرمانے لگے : مجھے اور تو کچھ خبر نہیں، بس اتنا پتہ ہے کہ ایک بار میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا تھا، میں تو اس سنت پر عمل کر رہا ہوں اور اس وقت حضورِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی ادا میرے پیشِ نظر ہے۔
ایک دفعہ وضو کے بعد بغیر کسی وجہ کے مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا : آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں جبکہ کسی سے گفتگو اور مکالمہ بھی نہیں۔ فرمانے لگے : مجھے کسی سے کیا غرض! میں نے تو ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح وضو کرنے کے بعد مسکراتے دیکھا تھا، میں تو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی ادا کو دہرا رہا ہوں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
ترے نقشِ پاکی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
اس تعلقِ عشقی کا اظہار تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیوں میں جھلکتا تھا۔
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 2221
طبري، تفسير، 26 : 986
ابن کثير، تفسير، 4 : 187
Posting Permissions
- You may not post new threads
- You may not post replies
- You may not post attachments
- You may not edit your posts
-
Forum Rules