سلیم میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کردی ہیں، جانتے بھی ہو، اب تمھیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔
“پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل Ú©Û’ نام سے پکارتا ÛÛ’Û”Û”Û”Û”Û”Û”Ù¾Ø§Ú¯Ù„Û Û”Û”Û”Û”Û”Û”ÛØ§Úº عباس، میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگ „۔۔۔۔۔دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔خرد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مع٠وم ہے کیوں؟”
یہاں تک کہہ کر وہ میری طرف سر تا پا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔
“اس لئے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دکھلا دکھلا کر یہ پوچھتا ہوں کہ اس بڑھتی ہوئی غربت کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے، اسلئے وہ مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جاسکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منور بنایا جا سکتا ہے۔”
“وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ جن Ú©ÛŒ نبضِ Ø+یات دوسروں Ú©Û’ خون Ú©ÛŒ مرہونِ منت ہے۔ وہ جن کا فردوس غرباء Ú©Û’ جہنم Ú©ÛŒ مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، وہ جن Ú©Û’ سازِ عشرت Ú©Û’ ہر تار Ú©Û’ ساتھ بیواؤں Ú©ÛŒ آہیں، یتیموں Ú©ÛŒ عریانی، لاوارث بچوں Ú©ÛŒ صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہ٠یں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردۂ غربت اپنے دلوں Ú©Û’ مشترکہ لہو میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں Ú©ÛŒ پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔۔۔۔وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنت Ú©Û’ دروازے ہر شخص کیلیے وا ہونگے۔”

انقلاب پسند (سعادت Ø+سن منٹو) سے اقتباس