اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا
حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا
جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے
تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا
اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں
دستِ باراں نے مرے در پر جو دتک دی تو کیا
دھوپ کرنوں میں پرو لے جائے گی ساری نمی
رات بھر پھولوں نے دستِ شب سے شبنم پی تو کیا
اب تو سیلابوں سے جل تھل ہو گئیں آبادیاں
اب مرے کھیتوں کی لاشوں پر گھٹا برسی تو کیا
چور جس گھر میں پلیں، اُس گھر کو کیسے بخش دیں
لُوٹنے آئے ہیں ہم لوگوں کو اپنے ہی تو کیا
ہم نہیں ہوں گے تو پھر کس کام کی تحسینِ شعر
روشنی اک روز ان لفظوں سے پُھوٹے گی تو کیا
دُور کی آہٹ تو آ پہنچی ہے اب سر پر ندیم
آگہی نے مدتوں کے بعد کروٹ لی تو کیا