کچھ نہ کسی سے بولیں گے
تنہائی میں رو لیں گے

ہم بے راہ رووں کا کیا
ساتھ کسی کے ہو لیں گے

خود تو ہوئے رسوا لیکن
تیرے بھید نہ کھولیں گے

جیون زہر بھرا ساگر
کب تک امرت گھولیں گے

ہجر کی شب سونے والے
حشر کو آنکھیں کھولیں گے

پھر کوئی آندھی اُٹھے گی
پنچھی جب پر تولیں گے

نیند تو کیا آئے گی فراز
موت آئی تو سو لیں گے