عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
...
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا
شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام اس کا
صبح موجۂ گل کو نقشِ بوریا پایا
جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل ہے
زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا
ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ
ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا
دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
نَے اسد جفا سائل، نَے ستم جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا