آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے
پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے
خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا

خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے
ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں

خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا
سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا
دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے
رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے

قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا
کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا