میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید، جانِ جاں شاید
کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو
ہے دل غمگیں، بہت غمگیں
کہ اب تم یاد دل وارانہ آتی ہو
شمیم دور ماندہ ہو
بہت رنجیدہ ہو مجھ سے
مگر پھر بھی
مشامِ جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو
جدائی میں بلا کا التفاتِ محرمانہ ہے
قیامت کی خبر گیری ہے
بےحد ناز برداری کا عالم ہے
تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
میرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا
یہ میرے اندرونِ ذات کے تاراج گر
جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی
تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے
دل سہما ہوا سا ہے
تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے
جون ایلیا