تمہارا لہجہ ہو خوشبوؤں سا، ہمارا لہجہ دعاؤں سا ہو
جو دوپہر میں بھی ہم ملیں تو، مزاج ٹھنڈی ہواؤں سا ہو
جو مل کے بیٹھیں تو اسطرح ہم کہ جیسے انسان مل رہے ہوں
نہ لفظ نشتر بنیں زباں پر، نہ لہجہ کڑوی دواؤں سا ہو
بچاؤں دنیا کو دھوپ سے میں، تمام خلقت کے کام آؤں
میرے خدایا وجود میرا، ہرے درختوں کی چھاؤں سا ہو
اُگیں خوشی کے گلاب کیسے، دہکتے شعلوں کی کھیتیوں میں
کسے پکارے یہ زندگانی، ہر آدمی جب چتاؤں سا ہو
بچا کے رکھنا انا کی دولت، یہی تو پونجی ہے اہلِ دل کی
کبھی بھی اس سے نہ جھک کے ملنا، غرور جس میں خداؤں سا ہو