بابا ÛŒØ+ییٰ خاں کون ÛÛ’ØŸ
......روزن دیوار سے …عطاء الØ+Ù‚ قاسمی
ÛŒÛ Ú†Ù†Ø¯ برس Ù¾ÛÙ„Û’ Ú©ÛŒ بات ÛÛ’ØŒ میں اقبال ٹاؤن Ú©ÛŒ مون مارکیٹ میں کسی کام Ú©Û’ لئے گیا، کام سے لوٹا تو ایک دکان Ú©Û’ باÛر پتھریلے Ùرش پر میں Ù†Û’ ایک Ø³ÛŒØ§Û Ù¾ÙˆØ´ گداگر Ú©Ùˆ دیکھا جو Ùرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ اس Ù†Û’ Ø³ÛŒØ§Û Ø±Ù†Ú¯ Ú©ÛŒ عبا اوڑھی Ûوئی تھی، اس Ú©Û’ Ú†Ûرے کا رنگ بھی سیاÛÛŒ مائل تھا، اس Ú©ÛŒ Ú¯Ú¾Ù†ÛŒ داڑھی تھی جس میں سÙید اور کالے بال یکساں مقدار میں تھے۔ اس Ù†Û’ نظر بھر کر میری طر٠دیکھا، اس Ú©Û’ دیکھنے میں اتنی کشش تھی Ú©Û Ù…ÛŒØ±Ø§ جی چاÛا میں اس Ú©Û’ پاس جاؤں لیکن اس خیال Ù†Û’ میرے قدم روک لئے Ú©Û Ù¾Ú¾Ø± ÛŒÛ Ùقیر میرا پیچھا Ù†Ûیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ گا۔ ÙˆÛ Ù…Ø¬Ú¾Û’ کوئی اپنی دردبھری داستان سنائے گا اور یوں پیسے بٹورنے Ú©ÛŒ کوشش کرے گا Ø¬Ø¨Ú©Û Ù…ÛŒÚº گداگری Ú©Û’ سخت خلا٠ÛÙˆÚº اور ان لوگوں Ú©ÛŒ مدد Ú©Ùˆ Ú¯Ù†Ø§Û Ú©Û’ متراد٠سمجھتا ÛÙˆÚº Ú†Ù†Ø§Ù†Ú†Û Ù…ÛŒÚº Ù†Û’ اپنے رکتے قدم ایک بار پھر تیز کئے مگر اس دوران میرے کانوں میں ایک آواز آئی â€Ù‚اسمی صاØ+ب !“ میں Ù†Û’ ادھر ادھر دکھا مگر اس Ø³ÛŒØ§Û Ù¾ÙˆØ´ Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ù…ÛŒØ±Û’ گرد Ùˆ نواØ+ میں کوئی Ù†Ûیں تھا۔ ایک بار پھر Ù…Ø+بت میں ڈوبی Ûوئی آواز سنائی دی â€Ù‚اسمی صاØ+ب!“ اور مجھے یقین ÛÙˆ گیا Ú©Û ÛŒÛ ÙˆÛÛŒ شخص ÛÛ’ جس سے میں بچنے Ú©ÛŒ کوشش کر رÛا تھا۔ میں Ø¨Ø§Ø¯Ù„Ù Ù†Ø®ÙˆØ§Ø³ØªÛ Ø§Ø³ Ú©Û’ پاس گیا مگر میں بÛت Ø+یران تھا Ú©Û ÛŒÛ Ùقیر مجھے کیسے جانتا ÛÛ’ØŸ ÙˆÛ Ù…Ø¬Ú¾Û’ اپنے پاس دیکھ کر بÛت خوش نظر Ø¢ رÛا تھا۔ اس Ù†Û’ مجھے مخاطب کیا اور Ú©Ûا â€Ø¢Ù¾ مجھے Ù†Ûیں جانتے لیکن میں آپ کا نوکر، میں آپ کا خادم Ûوں، میں آپ Ú©Û’ پاؤں Ú©ÛŒ خاک Ûوں، آپ میرے Ù…Ø+بوب Ûیں، میں آپ کا کالم بÛت شوق سے پڑھتا Ûوں“ میں اس Ú©ÛŒ باتیں سن کر چکرا کر Ø±Û Ú¯ÛŒØ§Û” اس کا Ø+Ù„ÛŒÛ ØŒ اس Ú©ÛŒ وضع قطع، شدید گرمی Ú©Û’ موسم میں پتھریلے Ùرش پر اتنے سکون سے بیٹھنا جیسے کسی نرم Ùˆ گداز صوÙÛ’ پر بیٹھا Ûو، اس شخص کا Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ سے کیا تعلق ÛÙˆ سکتا ÛÛ’ØŒ پھر اس کا انکسار۔ میرے مداØ+ اور بھی بÛت سے لوگ Ûیں لیکن ÙˆÛ Ø§Ù¾Ù†ÛŒ ذات Ú©ÛŒ اس طرØ+ Ù†ÙÛŒ کبھی Ù†Ûیں کرتے۔ میں Ù†Û’ اس کا Ø´Ú©Ø±ÛŒÛ Ø§Ø¯Ø§ کیا اور پھر Ú©Ú†Ú¾ دیر Ú©Û’ لئے رک گیا ØªØ§Ú©Û ÙˆÛ â€Ø+رÙ٠مدعا“ زبان پر لائے اور یوں اس Ú©ÛŒ اصلیت ظاÛر ÛÙˆ سکے۔ لیکن اس Ù†Û’ درود شری٠پڑھتے Ûوئے مجھے خداØ+اÙظ Ú©ÛÛ Ø¯ÛŒØ§Û”
پھر ایک دن میں Ù†Û’ اسے اس پرانے Ø+لیے میں اشÙاق اØ+مد Ú©Û’ ڈرائننگ روم میں دیکھا۔ Ù¾ÛÙ„ÛŒ ملاقات Ú©Û’ بعد ÛŒÛ Ø§Ø³ Ù†Û’ مجھے دوسری دÙØ¹Û Ú†ÙˆÙ†Ú©Ø§ÛŒØ§ تھا۔ ÙˆÛ Ø§Ù† Ú©Û’ قدموں میں بیٹھا ان Ú©Û’ پاؤں داب رÛا تھا یعنی ایک اور انوکھی بات تھی جو اس Ú©Û’ Ø+والے سے میرے سامنے آئی تھی۔ اس Ú©Û’ ساتھ دو درویش قسم Ú©Û’ نوجوان اور بھی تھے جو بظاÛر اس Ú©Û’ چیلے چانٹے لگتے تھے۔ جب ÛŒÛ Ù„ÙˆÚ¯ اٹھ کر گئے تو میں Ù†Û’ ÛŒÛ Ù…Ø¹Ù…Û Ø§Ø´Ùاق صاØ+ب Ú©Û’ سامنے رکھا اور پوچھا â€ÛŒÛ پراسرار سا Ø³ÛŒØ§Û Ù¾ÙˆØ´ کون Ûے؟“ اشÙاق صاØ+ب Ù†Û’ جواب دیا â€Ø§Ø³ کا نام ÛŒØ+ییٰ خان ÛÛ’ØŒ ÛŒÛ Ø¨Ûت بڑا رائٹر ÛÛ’ اور تصو٠کے راستوں کا مساÙر Ûے“۔ اشÙاق صاØ+ب Ú©ÛŒ رائے کا بطلان میرے لئے ممکن Ù†Ûیں تھا تاÛÙ… میں Ù†Û’ ان Ú©Û’ ان ریمارکس Ú©Ùˆ Ø+ÙˆØµÙ„Û Ø§Ùزائی Ú©Û’ کھاتے میں ڈالا اور ÙˆÛاں سے واپسی پر Ø¯ÙˆØ¨Ø§Ø±Û Ø§Ù¾Ù†Û’ دنیاوی کاموں میں مشغول ÛÙˆ گیا۔ اس Ú©Û’ بعد میں Ù†Û’ بابا ÛŒØ+ییٰ خاں Ú©Ùˆ دو ایک بار پیدل اور دو ایک بار ان دو نوجوانوں میں سے ایک Ú©Û’ ساتھ جنÛیں میں Ù†Û’ اشÙاق صاØ+ب Ú©Û’ Ûاں دیکھا تھا، موٹر سائیکل پر جاتے دیکھا۔ پھر ایک دن ایسے Ûوا Ú©Û Ù…Ø¬Ú¾Û’ اس Ú©ÛŒ ایک کتاب Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ کا موقع ملا جس کا نام غالباً â€Ù¾ÛŒØ§ رنگ کالا“ یا â€Ú©Ø§Ø¬Ù„ کوٹھا “ تھا۔ مجھے یاد Ù†Ûیں پڑتا Ú©Û Ø§Ø³ Ú©ÛŒ ان دو تصانی٠میں سے کون سی کتاب میں Ù†Û’ Ù¾ÛÙ„Û’ Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ تھی لیکن جوں جوں میں ÛŒÛ Ú©ØªØ§Ø¨ پڑھتا چلا گیا میں Ø+یرت Ú©Û’ سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔ ÛŒÛ Ú©ØªØ§Ø¨ اس Ú©Û’ مشاÛدات اور تجربات پر مشتمل تھی۔ میں Ù†Û’ منظر Ú©Ø´ÛŒ پر اتنی عظیم دسترس اس سے Ù¾ÛÙ„Û’ Ú©Ûیں Ù†Ûیں دیکھی تھی۔ کتاب پڑھتے Ûوئے میں Ûر منظر میں اس طرØ+ Ú¯Ù… ÛÙˆ جاتا تھا جیسے میں اس کا Ø+ØµÛ ÛÙˆÚºÛ” اور کردار نگاری؟ کاش خدا مجھے بھی ÛŒÛ Ûنر دیتا! ÛŒÛ Ø¨Ø§Ø¨Ø§ دنیا Ú©Û’ مختل٠ملکوں میں گھومتا پھرتا رÛتا ÛÛ’ اور مجھے لگا میں Ûر Ø¬Ú¯Û Ø§Ø³ Ú©Û’ ساتھ ÛÙˆÚº خصوصاً انڈیا Ú©Û’ کنبھ میلے میں جوتشیوں، سنیاسیوں، صوÙیوں، Ùراڈیوں اور جن دوسرے طبقے Ú©Û’ اÙراد سے اس Ù†Û’ میری ملاقات کرائی، ÙˆÛ Ø³Ø¨ میرے دوست بن گئے۔ بابا ÛŒØ+ییٰ خاں Ù†Û’ اپنی Ù…ØªØ°Ú©Ø±Û Ø¯Ùˆ کتابوں میں تصو٠کے مراØ+Ù„ اور پھر اس Ø+والے سے بعض عجیب Ùˆ غریب واقعات کا ذکر بھی کیا ÛÛ’ جو میرا موضوع Ù†Ûیں Ûیں۔ لیکن میں بابا Ú©Û’ طرز نگارش کا Ùین بن گیا۔ ÛŒÛ Ø§Ø³ Ù†Û’ مجھے تیسری دÙØ¹Û Ú†ÙˆÙ†Ú©Ø§ÛŒØ§ تھا۔ میں Ù†Û’ انڈیا سے آئے Ûوئے Ù…Ûمانوں شمس الرØ+من Ùاروقی ØŒ شمیم Ø+Ù†ÙÛŒ اور بعض دوسرے دوستوں Ú©Ùˆ ایک بار اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا تو بابا ÛŒØ+ییٰ خاں سے بھی گزارش Ú©ÛŒ Ú©Û ÙˆÛ Ø¨Ú¾ÛŒ تشری٠لائیں۔ میں Ù†Û’ Ù…Ûمانوں سے بابے کا تعار٠کرایا اور بابے Ù†Û’ انÛیں اپنی ایک کتاب پیش کی۔ دو سال بعد شمیم Ø+Ù†ÙÛŒ Ø¯ÙˆØ¨Ø§Ø±Û Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù† آئے تو دوران ملاقات انÛÙˆÚº Ù†Û’ بتایا Ú©Û Ø¢Ù¾ Ú©Û’ Ûاں جس Ø³ÛŒØ§Û Ù¾ÙˆØ´ بزرگ سے میری ملاقات Ûوئی تھی ÙˆÛ Ù…Ø¬Ú¾Û’ علی Ú¯Ú‘Ú¾ میں سڑک Ú©Û’ کنارے بیٹھے مل گئے۔ بھئی کیا کمال کا آدمی اور کمال کا رائٹر ÛÛ’Û”
اور اب ÛŒÛ Ú¯Ø²Ø´ØªÛ Ø±Ø§Øª Ú©ÛŒ بات ÛÛ’ ØŒ تقریباً ساڑھے دس بجے ان کا Ùون آیا اور Ú©Ûا â€ÛŒÛ آپ Ù†Û’ آج Ú©Û’ کالم میں کیا لکھا ÛÛ’ Ú©Û Ø³ÛŒÙ„Ø§Ø¨ زدگان Ú©Û’ لئے میں Ù†Û’ 42 لاکھ ØªÛŒØ±Û Ûزار روپے جمع کر لئے Ûیں۔ اب میں لالچی ÛÙˆ گیا ÛÙˆÚº اور میری خواÛØ´ ÛÛ’ Ú©Û ÛŒÛ Ø±Ù‚Ù… پچاس لاکھ ÛÙˆ جائے۔ آپ Ù†Û’ اس یقین کا اظÛار بھی کیا ÛÛ’ Ú©Û Ø§ÛŒØ³Ø§ ضرور ÛÙˆ گا!“ میں Ù†Û’ جواب دیا â€Ù…یں Ù†Û’ لکھا تو ÛÛ’ لیکن دیکھتے Ûیں کیا Ûوتا Ûے؟“ بولے â€Ø¯ÛŒÚ©Ú¾Ù†Ø§ کیا ÛÛ’ ØŒ باقی پیسے میں دے رÛا Ûوں“۔اور اس وقت سات لاکھ 67 Ûزار روپے کا چیک میرے سامنے پڑا ÛÛ’Û” Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ú©Ø§Ù„Ù… Ú©ÛŒ اشاعت Ú©Û’ بعد مزید بیس Ûزار روپے کا Ø¹Ø·ÛŒÛ Ù…ÙˆØµÙˆÙ„ ÛÙˆ گیا تھا اور میں سوچ رÛا ÛÙˆÚº Ú©Û Ù…Ø¬Ú¾Û’ مسلسل چونکانے والا بابا ÛŒØ+ییٰ خاں واقعی کوئی جیتا جاگتا شخص ÛÛ’ یا کوئی اÙسانوی کردار ÛÛ’ØŸ ÛŒÛ Ø¨Ú¾ÛŒ مجھے کسی â€Ø¨Ø§Ø¨Û’“ ÛÛŒ سے پوچھنا Ù¾Ú‘Û’ گا۔