Results 1 to 3 of 3

Thread: Bachay

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Aug 2011
    Location
    SomeOne H3@rT
    Age
    38
    Posts
    2,345
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    825 Thread(s)
    Rep Power
    429514

    candel Bachay

    بچے
    Ú†Û’ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں Ú©ÛŒ کئی قسمیں ہیں مثلاً بلی Ú©Û’ بچے، فاختہ Ú©Û’ بچے وغیرہ۔ مگر میری مراد صرف انسان Ú©Û’ بچوں سے ہے، جن Ú©ÛŒ ظاہرا تو کئی قسمیں ہیں، کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھا سا بچہ ہے۔ کوئی پھول سا بچہ ہے اور کوئی چاند سا بچہ ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت تک Ú©ÛŒ باتیں ہیں۔ جب تک برخوردار پنگوڑے میں سویا پڑا ہے۔ جہا...Úº بیدار ہونے پر بچے Ú©Û’ پانچوں Ø+واس کام کرنے Ù„Ú¯Û’ØŒ بچے Ù†Û’ ان سب خطابات سے بےنیاز ہو کر ایک الارم کلاک Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ اختیار کرلی۔ یہ جو میں Ù†Û’ اوپر لکھا ہے کہ بیدار ہونے پر بچے Ú©Û’ پانچوں Ø+واس کام کرنے لگتے ہیں یہ میں Ù†Û’ اور Ø+کماء Ú©Û’ تجربات Ú©ÛŒ بنا پر لکھا ہے ورنہ Ø+اشا وکلاء میں اس بات کا قائل نہیں۔ کہتے ہیں بچہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے لیکن مجھے آج تک سوائے اس Ú©ÛŒ قوت ناطقہ Ú©Û’ اور کسی قوت کا ثبوت نہیں ملا۔ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ روتا ہوا بچہ میرے Ø+والے کردیا گیا ہے کہ ذرا اسے Ú†Ù¾ کرانا، میں Ù†Û’ جناب اس بچے Ú©Û’ سامنے گانے گائے ہیں، شعر Ù¾Ú‘Ú¾Û’ ہیں، ناچ ناچے ہیں، تالیاں بجائی ہیں، گٹھنوں Ú©Û’ بل Ú†Ù„ کر Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©ÛŒ نقلیں اتاری ہیں، بھیٹر بکری Ú©ÛŒ سی آوازیں نکالی ہیں، سر Ú©Û’ بل Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو کر ہوا میں بائیسکل چلانے Ú©Û’ نمونے پیش کئے ہیں۔ لیکن کیا مجال جو اس بچے Ú©ÛŒ یکسوئی میں ذرا بھی فرق آیا ہو یا جس سُر پر اس Ù†Û’ شروع کیا تھا اس سے ذرا بھی نیچے اُترا ہو اور خدا جانے ایسا بچہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے تو کس وقت؟ بچے Ú©ÛŒ زندگی کا شاید ہی کوئی لمØ+ہ ایسا گزرتا ہو جب اس Ú©Û’ لئے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔ اکثر اوقات تو وہ خود ہی سامعہ نوازی کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ فرض ان Ú©Û’ لواØ+قین پر عائد ہوتا ہے۔ ان Ú©Ùˆ سلانا ہو تو لوری دیجئے۔ ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بےمعنی سے بےمعنی منہ بنا کربلند سے بلند آواز میں ان Ú©Û’ سامنے دہرائیے اور Ú©Ú†Ú¾ نہ ہو تو شغل بےکاری Ú©Û’ طور پر ان Ú©Û’ ہاتھ میں ایک جھنجھنا دیدیجئے۔ یہ جھنجھنا بھی Ú©Ù… بخت کسی بےکار Ú©ÛŒ ایسی ایجاد ہے کہ کیا عرض کروں یعنی ذرا سا آپ ہلا دیجئے لڑھکتا چلا جاتا ہے او رجب تک دم میں دم ہے اس میں سے ایک ایسی بےسری، کرخت آواز متواتر نکلتی رہتی ہے کہ دنیا میں شاید اس Ú©ÛŒ مثال Ù…Ø+ال ہے اور جو آپ Ù†Û’ مامتا یا ”باپتا“ Ú©Û’ جوش میں آکر برخوردار Ú©Ùˆ ایک عدد وہ ربڑ Ú©ÛŒ گڑیا منگوا دی جس میں ایک بہت ہی تیز آواز Ú©ÛŒ سیٹی Ù„Ú¯ÛŒ ہوتی ہے تو بس پھر خدا Ø+افظ۔ اس سے بڑھ کر میری صØ+ت Ú©Û’ لئے مضر چیز دنیا میں اور کوئی نہیں۔ سوائے شاید اس ربڑ Ú©Û’ تھیلے Ú©Û’ جس Ú©Û’ منہ پر ایک سیٹی دار نالی Ù„Ú¯ÛŒ ہوتی ہے اور جس میں منہ سے ہوا بھری جاتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو والدین کہلاتے ہیں۔ بدقسمت ہیں تو وہ بےچارے جو قدرت Ú©ÛŒ طرف سے اس ڈیوٹی پر مقرر ہوئے ہیں کہ جب کسی عزیز یا دوست Ú©Û’ بچے Ú©Ùˆ دیکھیں تو ایسے موقع پر ان Ú©Û’ ذاتی جذبات Ú©Ú†Ú¾ ہی کیوں نہ ہوں وہ یہ ضرور کہیں کہ کیا پیارا بچہ ہے۔ میرے ساتھ Ú©Û’ گھر ایک مرزا صاØ+ب رہتے ہیں۔ خدا Ú©Û’ فضل سے Ú†Ú¾ بچوں Ú©Û’ والد ہیں۔ بڑے بچے Ú©ÛŒ عمر نو سال ہے۔ بہت شریف آدمی ہیں۔ ان Ú©Û’ بچے بھی بےچارے بہت ہی بےزبان ہیں۔ جب ان میں سے ایک روتا ہے تو باقی Ú©Û’ سب Ú†Ù¾Ú©Û’ بیٹھے سنتے رہتے ہیں۔ جب وہ روتے روتے تھک جاتا ہے تو ان کا دوسرا برخوردار شروع ہوجاتا ہے۔ وہ ہار جاتا ہے تو تیسرے Ú©ÛŒ باری آتی ہے، رات Ú©ÛŒ دیوٹی والے بچے الگ ہیں۔ ان کا سُر ذرا باریک ہے۔ آپ انگلیاں چٹخوا کر، سر Ú©ÛŒ کھال میں تیل جھسوا کر، کانوں میں روئی دے کر، Ù„Ø+اف میں سر لپیٹ کر سوئیے، ایک لمØ+Û’ Ú©Û’ اندر آپ Ú©Ùˆ جگا Ú©Û’ اُٹھا Ú©Û’ بٹھا نہ دیں تو میرا ذمہ۔ ان ہی مرزا صاØ+ب Ú©Û’ گھر پہ جب میں جاتا ہوں تو ایک ایک بچہ Ú©Ùˆ بلا کر پیار کرتا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں۔ کئی دفعہ دل میں آیا مرزا صاØ+ب سے کہوں Ø+ضرت آپ Ú©ÛŒ ان نغمہ سرائیوں Ù†Û’ میری زندگی Ø+رام کر دی ہے، نہ دن Ú©Ùˆ کام کرسکتا ہوں نہ رات Ú©Ùˆ سوسکتا ہوں۔ لیکن یہ میں کہنے ہی Ú©Ùˆ ہوتا ہوں کہ ان کا ایک بچہ کمرے میں آجاتا ہے اور مرزا صاØ+ب ایک والدانہ تبسم سے کہتے ہیں۔ اختر بیٹا!ان Ú©Ùˆ سلام کرو، سلام کرو بیٹا، ان کا نام اختر ہے۔ صاØ+ب بڑا اچھا بیٹا ہے۔ کبھی ضد نہیں کرتا، کبھی نہیں روتا، کبھی ماں Ú©Ùˆ دق نہیں کرتا۔ میں اچھی طرØ+ جانتا ہوں کہ یہ وہی نالائق ہے جو رات Ú©Ùˆ دو بجے گلا پھاڑ پھاڑ Ú©Û’ روتا ہے۔ مرزا صاØ+ب قبلہ تو شاید اپنے خراٹوں Ú©Û’ زور شور میں Ú©Ú†Ú¾ نہیں سنتے، بدبختی ہماری ہوتی ہے لیکن کہتا یہی ہوں کہ ”یہاں آؤ بیٹا“ Ú¯Ù¹Ú¾Ù†Û’ پر بٹھا کر اس کا منہ بھی چومتا ہوں۔ خدا جانے آج Ú©Ù„ Ú©Û’ بچے کس قسم Ú©Û’ بچے ہیں۔ ہمیں اچھی طرØ+ یاد ہے کہ ہم بقرعید Ú©Ùˆ تھوڑا سا رولیا کرتے تھے او رکبھی کبھار کوئی مہمان آنکلا تو نمونے Ú©Û’ طور پر تھوڑی سی ضد کرلی، کیونکہ ایسے موقعہ پر ضد کارآمد ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہ کہ چوبیس گھنٹے متواتر روتے رہیں۔ ایسی مشق ہم Ù†Û’ کبھی بہم نہ پہنچائی تھی-


    پطرس بخاری
    Last edited by Hidden words; 06-08-2012 at 11:58 PM.

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •