آج بہت سالوں کے بعد
اس کا فون آیا
پوچھا کیسے ہو؟
خوش تو ہو‘ نا!
کیا اب بھی شرارتیں کرنا پسند ہیں
کیا اب بھی لانگ ڈرائیو پر جاتے ہو
کیا اب بھی لاوڈ میوزک سننا پسند ہے
کیا اب بھی تم ریڈ روز اور موتیے کی خوشبو سے
دیوانوں کی طرح پیار کرتے ہوکچھ پل تو میرے خاموشی سے کٹے
کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا
میں اسے کیسے بتاتا
کہ جب کسی شہر یا بستی پر
کوئی بڑا طوفان یا سیلاب گزرجائے
تو اس کی حالت کیسی ہوتی ہے
میں اسے کیسے بتاتا کہ اس دل کی حالت
بالکل ہیروشیما کی طرح ہے
جہاں ایٹم بم گرانے کے بعد
زندگی کا نام و نشان مٹا دیا گیا تھا
جہاں آج بھی بچے معذور پیدا ہورہے ہیں
بالکل میری خواہشوں کی طرح
جو کسی معصوم بچے کی طرح
بہت سا سہارا لے کر
کھڑی ہوتی ہیں
اور پھر دھم سے گر پڑتی ہیں
مگر آج بھی
میں اسے کچھ نہ کہہ سکا
جواب میں صرف اتنا کہا کہ
اچھا ہوں
خوش ہوں