اللہ تعالیٰ ہمارا خالق و مالک ہے ، اس نے ہمارے لئے بعض اشیاءکا استعمال ممنوع و حرام قرار دیا ہے ، ہمیں چاہئیے کہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے ان سے رک جائیں ، اسی میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ، سونا مرد کے لئے حرام و ممنوع ہے ، عورت کے لئے جائز ہے :
1 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا ، اور فرمایا تم میں سے کوئی آگ کے انگارے کا قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے ( یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی وغیرہ کو آگ کے انگارے سے تعبیر کیا ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی کو کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے فائدہ حاصل کرو ، تو اس نے کہا ، نہیں ، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا ہے ، میں یہ کبھی بھی نہیں لوں گا ۔ ( صحیح مسلم : 2090 )
مطلب یہ ہے کہ یہ سونے کی انگوٹھی نہیں ، جہنم کی آگ کا انگارا ہے ، جسے ہاتھ میں لیے ہوئے ہو ۔
2 سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یلبس حریرا ولا ذھبا ( مسند الامام احمد : 261/5 وسندہ حسن )
” جو ( مرد ) اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ ریشم اور سونا مت پہنے ۔ “
حافظ منذری رحمہ اللہ ( الترغیب ) اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کو ” ثقہ “ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 174/5 )
3 سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجران سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ تم میرے پاس آئے ہو ، جبکہ آپ کے ہاتھ میں آگ کا انگارا ہے ۔ ( نسائی : 5191 ، مسند الامام احمد : 14/3 وسندہ حسن )
امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اسے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کا راوی ابوالنجیب المصری ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ ( 1669 ) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اس کو ” ثقہ “ قرار دیا ہے ۔ امام ابن یونس المصری کہتے ہیں ۔ کان احد الفقہاءفی ایامہ
ہماری حالت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی سے نواز رکھا ہے تو فخریہ طور پر سونے کی انگوٹھیاں وغیرہ پہن لیتے ہیں ، ہمیں چاہئیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچیں ، وہ کتنا ہی بدنصیب و بدبخت اور نامراد انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ کپڑوں اور سونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرے گا ۔
4 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی ( منسوخیت و حرمت سے پہلے ) پہنتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں یہ کبھی بھی نہیں پہنوں گا ، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 5865 ، صحیح مسلم : 53/2091 )
سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں سے منع فرمایا ، ان میں ایک سونے کی انگوٹھی ( وغیرہ ) تھی ۔ ( صحیح بخاری : 5863 )
فائدہ : ابوالسفر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ۔ “ ( مصنف ابن ابی شیبہ : 282/8 ، شرح معانی الاثار : 259/4 ، وسندہ صحیح )
براءبن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرد کے لئے سونا پہننے کی ممانعت بیان کر رہے ہیں ، جبکہ خود سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے ، اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ یہ سونے کی انگوٹھی پہننا اپنے لیے خاص سمجھتے تھے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
محمد بن مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو کہتے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سونے کی انگوٹھی کیوں پہن رکھی ہے ؟
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ( مردوں ) کو منع فرما دیا ہے ، تو سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ کے سامنے مالِ غنیمت پڑا تھا ، آپ اسے تقسیم کر رہے تھے ، اس مالِ غنیمت میں قیدی اور دیگر سامان تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے کا سارا مال تقسیم کر دیا ، صرف ایک انگوٹھی بچ گئی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ مبارک اٹھائی ۔ پھر جھکالی ، پھر اٹھائی نیچے کرلی ، پھر اٹھائی اور فرمایا اے برائ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ، آپ نے وہ انگوٹھی لی اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
خذ البس ماکساک ورسولہ قال : وکان البراءیقول : کیف تامرونی ان اضع ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم البس ماکساک ورسولہ
” یہ سونے کی انگوٹھی لے لو ، اور پہن لو ، یہ آپ کو اللہ اور اس کے رسول نے پہنائی ہے ، براءبن عازب کہتے ہیں کہ آپ لوگ کیسے مجھے یہ انگوٹھی اتارنے کا حکم دیتے ہو ، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہ انگوٹھی پہن لے ۔ جو تجھے اللہ اور اس کے رسول نے پہنائی ہے ۔ ( مسند الامام احمد : 294/4 ، مسند ابی یعلیٰ : 1707 ، شرح معانی الاثار : 259/4 وسندہ حسن )
اس کا راوی محمد بن مالک الجوز جانی رحمہ اللہ کو امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے ” لاباس بہ “ کہا ہے ۔ ( الجرح والتعدیل : 88/8 )
امام ابن حبان رضی اللہ عنہ کا قول تعارض و تناقض کی وجہ سے ساقط ہے ۔ پتہ چلا کہ سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ یہ انگوٹھی اپنے لیے خاص سمجھتے تھے ۔ لہٰذا سونے کی حرمت مرد کے حق میں برقرار رہی ۔
فائدہ نمبر 2 : جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے سونے کی انگوٹھی پہننا ثابت ہے ، شاید ان تک سونے کی منسوخیت اور حرمت و ممانعت نہ پہنچی ہو ۔
6 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے دوست ( مرد ) کو آگ کا کڑا پہنانا پسند کرتا ہے ، چاہئیے کہ وہ اسے سونے کا کڑا پہنائے ۔ جو اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا پسند کرتا ہے ۔ وہ اسے سونے کا طوق ( زنجیر ) پہنائے جو اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا پسند کرتا ہے ، وہ اسے سونے کا کنگن پہنائے ۔ چاندی ہی استعمال کرو ( سونے کی طرف تجاوز مت کرو ) اس کے ساتھ کھیلو ( یعنی جو چیز چاہو بنالو ) ( ابوداود : 4236 ، مسند الامام احمد : 378, 334/2 وسندہ حسن )
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند تو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب : 273/1 )
معلوم ہوا سونا مرد کے لئے جہنم کی آگ ہے ، تھوڑا استعمال کرنا یا زیادہ ۔
7 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ مبارک میں ریشم اور بائیں میں سونا پکڑ کر فرمایا :
ان ھذان حرام علی ذکور امتی
” یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ “ ( ابوداؤد : 4057 ، نسائی : 160/8 ، ابن ماجہ : 3595 ، مسند الامام احمد : 115/1 وسندہ حسن )
حافظ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ نے اپنی ” احکام “ میں اس حدیث کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں :
حدیث حسن رجالہ معروفون
” اس کا راوی ابو افلح کو امام عجلی رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صدوق “ کہا ہے ۔ ( الکاشف : 271/3 )
عبداللہ بن زریر کو امام ابن سعد رحمہ اللہ ، امام عجلی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن خلفون رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ۔ عبدالعزیز بن ابی الصعبہ کو امام ابن حبان نے ” ثقہ “ اور امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے لیس بہ باس معروف کہا ہے ۔ کمامر
8 مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کھڑے ہو جائیے ، جو بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ، اس کے بارے میں لوگوں کو خبر دیں ، تو انہوں نے کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
” جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔ “
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لاناثھم
” ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ، عورتوں کے لئے حلال ہے ۔ “
( المعرفۃ والتاریخ یعقوب بن سفیان الفسوی : 506/2 ، بیہقی : 276, 75/3 ، شرح معانی الآثار للطحاوی : 251/4 وسندہ حسن )
یحییٰ بن ایوب اور الحسن بن ثوبان دونوں حسن الحدیث میں ، ہشام بن ابی رمیۃ کو امام ابن حبان اور یعقوب بن سفیان نے ثقہ کہا ہے ۔ مسلمہ بن مخلد کوجمہور محدثین نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
فائدہ نمبر1 : بعض اضطراری حالتوں میں مرد کے لئے سونے کے استعمال کا جواز ملتا ہے ۔ مثلاً سونے کا ناک لگوانا ، دانت یا داڑھ میں سونا بھرنا ، دانتوں کو سونے کی تار سے جوڑنا جائز ہے ۔ جیسا کہ عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” یوم الکلاب میں ان کی ناک کٹ گئی ، انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی ، جو بدبو دار ہو گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم صادر فرمایا ۔ ( مسند الامام احمد : 23/5 ، ابوداؤد : 4232 ، ترمذی : 1770 نسائی : 5164 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن “ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 5462 نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کے راوی عبدالرحمن بن طرفہ کو امام عجلی رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ” ثقہ “ کہا ہے لہٰذا یہ ” حسن الحدیث “ ہے ۔
فائدہ نمبر2 : بعض لوگ شوقیہ طور پر سونے کا خول چڑھا لیتے ہیں ، یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
9 سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مردوں ) کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کر دیا ۔ “ ( صحیح بخاری : 5864 ، صحیح مسلم : 2089 )
10 نجاشی ( بادشاہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں کچھ زیور بھیجا ، اس میں سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی ، جس پر حبشی نگینہ جڑا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی سے اعراض برتتے ہوئے لکڑی یا اپنی انگلی سے پکڑا ۔ پھر ( اپنی نواسی ) امامہ بنت زینب کو بلایا اور فرمایا ، بیٹی! یہ پہن لو ۔ “ ( ابوداؤد : 4235 ، ابن ماجہ : 3644 وسندہ حسن )
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی ہے ، تو صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا ، یقینا یہ تو آپ رضی اللہ عنہ سے بہتر ہستی نے بھی دیکھی ، لیکن اسے معیوب نہیں سمجھا ، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، وہ کون ہیں ؟ تو صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ “ ( نسائی : 5166 )
اس کی سند ” ضعیف “ ہے ، اس میں عطا الخراسانی ہے ، جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” یدلس “ یہ تدلس کے مرتکب تھے ۔ “ ( تقریب : 4600 )
یاد رہے کہ عطا الخراسانی ” حسن الحدیث “ ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس کو ” حسن “ بھی مان لیا جائے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تک سونے کی حلت کی منسوخیت نہیں پہنچی ہو گی ۔
الحاصل ، سونا مرد کے لئے حرام اور ممنوع ہے ، عورت کے لئے حلال ہے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے سچے دین پر راضی ہونے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازے ۔