تازہ مطالعاتی جائزے سے انکشاف ہواہے کہ بیک وقت کئی کام کرنے میں خواتین کی کارکردگی مردوں کے مقابلے میںنہ صرف بہتر ہوتی ہے بلکہ ان سے مردوں کے مقابلے میں کی کم غلطیاںسرزد ہوتی ہیں۔یہ حقیقت ایسے حالات میں منظر عام پر آئی ہے جبکہ عورتوں کو نہ صرف ضعیف العقل اور بے وقوف سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ تصور صرف مشرقی معاشرے تک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کم و بیش تمام معاشروںاور ترقی یافتہ اقوام میں بھی پایا جاتا ہے کہ مرد عورتوں کی نسبت کم غلطیاں کرتے ہیں۔ اگر دونوںصنفوں یعنی مردوں اور عورتوں کومتعدد کام ایک ساتھ کرنے پڑیں تو مرد کی کارکردگی عورت سے عموماً بہترسمجھی جاتی ہے۔اب تک خواتین اس سوچ کو انسانی معاشرے میں مردوں کی بالادستی قرار دیتی آئی ہیں لیکن اب سائنس دانوں نے ایک نئی تحقیق کے ذریعہ خواتین کے پلڑے کوبھاری کرتے ہوئے کہاہے کہ عورتوں کی نسبت مرد کہیں زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔اسی پر بس نہیں‘ اگر دونوں کو ایک ہی طرح کا کام کرنے کے لیے دئے جائیں تو مردوں کی کارکر دگی عورتوں کے مقابلے میں کم تر بلکہ اکثر وبیشتر خراب ترہوتی ہے۔
ٹیلی گراف Telegraphمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی آف ہرٹ فورڈشائرUniversity of Hertfordshire میں شعبہ نفسیات کے پروفیسر کیتھ لازProfessor Keith Laws کی قیادت میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم کو ایک مطالعاتی جائزے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ روزمرہ زندگی کے عام معمولات میں خواتین کی کارکردگی مردوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے اور وہ ان کی نسبت کم غلطیاں کرتی ہیں جبکہ عام خیال یہ ہے کہ مرد حساب کتاب میں عورتوں کی نسبت اچھے ہوتے ہیں۔ اس نئی تحقیق نے اس مفروضے کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ خواتین نہ صرف روزمرہ کے حساب کتاب اور جمع تفریق میں مردوں سے بہتر ہوتی ہیں بلکہ گمشدہ چیزوں کو ڈھونڈنے میں بھی ان کا دماغ مردوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
پروفیسر کیتھ لاز کا کہنا ہے کہ ہم اکثر ایسی کہانیاں اور لطیفے سنتے ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ عورتیں بہت غلطیاں کرتی ہیں اور وہ ایک ہی نوعیت کے کام میں مردوں کی برابری نہیں کرسکتیںلیکن جب ہم نے اس مفروضے کو لیبارٹری میں پرکھا تو وہ نہ صرف یہ کہ غلط ثابت ہوا بلکہ یہ بھی معلوم ہوا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔پروفیسر کیتھ لاز اور ان کی ٹیم نے اپنے اس تجربے میں ایک سورضاکاروں کو شامل کیا جن میں نصف مرد اور باقی نصف عورتیں تھیں۔ ان رضاکاروں کو آٹھ منٹ کے مقررہ وقت کے دوران تین کام کرنے کو کہا گیا جن میں پہلاکام تھا حساب کے چند سادہ سوالات حل کرنا،دوسراکام تھا ایک نقشے میں ریستوران کا پتہ لگانا اورتیسرا کام تھا یہ بتانا تھا کہ اگر کسی خاص جگہ ان کی چابی گم ہوجائے تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کیا کریں گے۔تجربے کے دوران رضاکاروں ایک ٹیلی فون کال بھی موصول ہوئی، تاہم یہ ان کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ کال سنیں یا نہ سنیں۔ جنہوں نے گھنٹی بجنے پر فون اٹھا، ان سے فون پر معلومات عامہ کے چند سوال پوچھے گئے، جن کا انہیں انہی آٹھ منٹ کے دوان جواب بھی دینا تھا۔مختصر یہ کہ اس مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ خواتین نے مقررہ وقت کے دوران یہ چاروں کام مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طورپر سرانجام دیے اور ان کی نسبت کم غلطیاں کیں۔
پروفیسر کیتھ لاز کہتے ہیں کہ مردوں کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں گردوپیش کے بارے میں عورتوں کی نسبت زیادہ شعور و آگہی ہوتی ہے۔اس لیے وہ اہم کاموں کی انجام دہی زیادہ بہتر انداز میں کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیںلیکن اس کے بر خلاف جب ہم نے اپنے تجربے میں انہیں ایسے کام کرنے کے لیے کہا جس کے لیے منصوبہ بندی اور گردوپیش کے ادراک کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ عورتوں سے پیچھے رہ گئے۔ پروفیسر لاز کا کہنا تھا کہ مطالعاتی جائزے سے یہ بھی پتہ چلا کہ مرد عموماً تحقیق کے دوران معاملے کی گہرائی تک جانے کے لیے زیادہ غوروفکرنہیں کرتے جبکہ خواتین معاملے کے ہر پہلو کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔