برکھا برسی، آنگن اُتری اِک البیلی شام
ایسی شام کے آتے ہی یاد آئے تیرا نام
کتنے پیارے پوَن جھروکے کتنے پیارے گیت
ان گیتوں کے سنتے ہی یاد آئے من کا مِیت
ساون کی پُر کیف ہوائیں جب جب رنگ لُٹائیں
ایسے میں کچھ بیتی باتیں یاد مجھے آ جائیں
پچھلی رُت اور اس رُت کا ہے یوں تو ایک مزاج
پچھلے ساون پاس تھا کوئی، دور ہے لیکن آج
سنا ہے وقت بدل جاتا ہے، بھر جاتے ہیں گھاؤ
شاید اگلے ساون میں تم اتنا یاد نہ آؤ