وہ جو عشق پیشہ تھے
دل فروش تھے
مر گئے!
وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے
اور ہوا کے ساتھ بکھر گئے
وہ عجیب لوگ تھے
برگِ سبز کو برگِ زرد کا روپ دھارتے دیکھ کر
رخِ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر
بھرے گلشنوں سے
مثالِ سایۂ ابر
پل میں گزر گئے
وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر
گھنے جنگلوں میں گھری ہوئی کھلی وادیوں کی بسیط دھند میں
رفتہ رفتہ اتر گئے