غزل
حُسن ِ اظہار کو رہوار بنایا اپنا
یُوں تغزل میں یہ معیار بنایا اپنا
اور ہوں گے جنہیں دنیا کی طلب ہوتی ہے
ہم نے دنیا کو طلب گار بنایا اپنا
ہم نے سُورج کی طرف اپنی ہتھیلی کر دی
دھوپ کے دشت میں چھتنار بنایا اپنا
آپ کا حال اگر لائق ِ اظہار نہ تھا
کیوں کسی شخص کو غمخوار بنایا اپنا
خواہش ِ دولت ِ دنیا کو بسا کر دل میں
سفر ِ زیست نہ دُشوار بنایا اپنا
دُوسری بار کسی اور کا ہونے نہ دیا
ہم نے جس شخص کو اک بار بنایا اپنا
رات اک منزل ِ خورشید کو پانے کے لیے
چاند کو قافلہ سالار بنایا اپنا
زندگی بھر جو ترے کام نہ آئے یاور!
کس لیے تُو نے اُنہیں یار بنایا اپنا
یاور عظیم