محبٌت کی نہیں تم نے ۔۔۔
اگر تم کو محبت تھی
... تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں؟
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
... کسی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا
تمھیں بھی یاد تو ہوگا؟
اگر تم کو محبٌت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
نہیں جاناں!
محبٌت تم نے دیکھی ہے، محبٌت تم نے پائی ہے
محبٌت کی نہیں تم نے ۔۔۔
محبٌت کی نہیں تم نے۔ ۔ ۔