ایک غزل تبسم فاطمہ رضوی صاحبہ کی محبتوں کے لیے
تمہارے خواب کی تعبیر لے کے آ یا ہوں
میں اپنے واسطے زنجیر لے کے ٓایا ہوں
عجیب خواہشِ تقسیم ہے مرے گھر میں
بھلا میں کونسی جاگیر لے کے آیا ہوں
مرے سخی تیری کوزہ گری پہ ہے موقوف
کہ میں تو حسرتِ تعمیر لے کے آیا ہوں
وہاں پہ گونج رہی تھی صداےٗ کن فیکون
سو جو ملی وہی تقدیر لے کے آیا ہوں
سوالِ پرسشِ اعمال پہ یہ کہنا ہے
میں وردِ آیۃِ تطہیر لے کے آیا ہوں
ہوا ہوں غالب و اقبال کے میں حلقہ بگوش
زباں پہ جب سخنِ میر لے کے آیا ہوں
سنا تھا شہر میں اوقات بھول جاتی ہے
میں ساتھ گاوٗں کی تصویر لے کے آیا ہوں