کسی شہر کے لوگوں کی عادت تھی کہ اپنے بدن پر ہیبت ناک چرند و پرند کی صورتیں بنواتے تھے۔ ایک پہلوان کو بھی خواہش ہوئی کہ اس کی پیٹھ پر غضب ناک شیر کی شکل بنائی جائے ، چنانچہ وہ ماہر کے پاس گیا۔
ماہر Ù†Û’ جب نوکدار سوئی سے غضبناک شیر Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ بنانی شروع Ú©ÛŒ تو پہلوان شدتِ تکلیف سے چیخنے چلانے لگا۔ پھر بڑی مشکل سے چیخ روک کر اس Ù†Û’ پوچھا : تم اس وقت شیر کا کون سا Ø+صہ بنا رہے ہو؟
ماہر نے کہا : دُم !
پہلوان بولا : دُم مت بنواؤ، شدید تکلیف ہو رہی ہے۔ بغیر دُم کا شیر بھی چلے گا۔
ماہر Ù†Û’ بات مان کر دوسری طرف بےرØ+Ù…ÛŒ سے زخم لگانے کا عمل شروع کیا۔
پہلوان پھر چلایا : اب شیر کا کون سا Ø+صہ ہے؟
ماہر بولا : کان !
پہلوان تکلیف Ú©Û’ باوجود غرایا : خبردار ! اس شیر Ú©Û’ کان نہ ہوں۔ میرا Ø+Ú©Ù… ہے کہ تم کان Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو۔
ماہر نے کسی اور طرف سوئی چبھونے کا عمل شروع کیا۔ پہلوان پھر کراہا۔
پوچھا : یہ کیا بنا رہے ہو؟
ماہر نے کہا : شیر کا پیٹ۔
پہلوان Ù†Ø+یف آواز میں گرجا: میرے جسم کا درد بڑھ رہا ہے۔ تم پیٹ نہ بناؤ۔ کیا شیر کیلئے پیٹ کا رہنا ضروری ہے؟

ماہر Ú©ÛŒ Ø+یرت Ú©ÛŒ انتہا نہ رہی۔ وہ دیر تک دانتوں میں انگلی دبائے تعجب کرتا رہا۔ پھر بالآخر پیر پٹخ کر اٹھا اور کہنے لگا :
کیا دنیا میں کسی نے ایسا شیر بھی دیکھا ہے جس کے کان ، دُم اور پیٹ نہ ہوں؟ ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں فرمایا۔۔

یہ واقعہ نقل کرتے ہوئے ہند Ú©Û’ معروف صØ+افی اور عالم دین مولانا سید اØ+مد ندوی لکھتے ہیں،
اس واقعہ میں پہلوان کا جو طرزِ عمل اپنی پیٹھ پر شیر کی شکل بنوانے کے متعلق تھا کہ وہ بغیر دُم ، کان ، پیٹ کے شیر کی شکل کا خواہاں تھا ، ٹھیک وہی طرزِ عمل ہم مسلمانوں کا اسلام کے تعلق سے ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اسلام Ú©Û’ بہت سے اØ+کام پر عمل نہ کرنے Ú©Û’ باوجود ہم مسلمان کہلائیں اور ہمارے اسلام پر کوئی Ø+رف نہ آئے۔۔
آزاد خیالی کے ساتھ سارے اسلام پر عمل کرنے میں چونکہ نفس کو بڑی مشکل پیش آتی ہے ، اسلئے ہم اسلام کی اپنی مرضی والی کچھ اچھی باتوں پر عمل کر کے "پورے اسلام" کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں !!


مولانا Ø+الی Ù†Û’ بھی شائد اسی طرز عمل Ú©Ùˆ دیکھتے ہوئے کہا ہوگا :
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔۔۔۔۔۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے !!