افغان عوام واقعی اورحقیقی طور پر یہ سوال کررہے ہیں کہ انسانی حقوق اور ترقی کے دعویدار امریکہ نے گزشتہ دس سالوں کے دوران افغانوں کو کیا دیا ہے؟
کہاں ہیں وہ اہم اور ضروری منصوبے،جسے آبی بند،بجلی کا پیداواری نظام اور مختلف النوع فیکٹریاں، جن کو بنانے کاامریکی اور ان کے کٹھ پتلی حکام دعویں کرتے ہیں،قابضین اور ان کی کٹھ پتلیوں کے نعروں کے بر خلاف اب امیروںاور غیریبوں میں فاصلے مزید بڑھ چکے ہیں،کرپشن اپنی انتہا پر ہے، جبکہ حکومتی امورچند لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہیں۔
دوسری جانب عوام نے گزشتہ دس سالوں میں صرف اور صرف اندھا دھند بمباریوں،رات میں چھاپوں اور بے گناہ افغانوں کو قید کرنا دیکھا ہے،ارزگان کے ہراود،ننگرہار کے ہسکہ مینہ اور کنڑ کے غازی آباد کے واقعات وہ دل سوز اور دہلانے والے اجتماعی قتل عام ہے، جو قابضین کے اصل چہرے کو واضح کرتی ہے،خاص طور پر زنگ آباد کا واقعہ جس میں امریکی اسپیشل فورسز نے دیگر افراد سمیت معصوم بچوں کو شہید کیا اور پھر ان کی لاشوں کو آ گ میں جلادیا گیا،یہ ایک ایسا وحشیانہ عمل ہے جس کاا رتکاب ،تاریخ کے بڑے بڑے قابضین نے بھی نہیں کیا۔عینی شایدین کا کہنا ہے کہ اس افسوناک واقعے میں ایک نہیں بلکہ بیس سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا،ہیلی کاپٹر ان کے اوپر پروزایں کررہے تھے، اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور قاتلوں کو عبرت ناک سزا دینے کے بجائے قاتلوں میں ایک فوجی کو جو اُن کے بقول اس واقعے کا اکیلا مجرم ہے، کو فورا ہی افغانستان باہر نکالا گیا اور پھر کویت میں امریکی اڈے لے جا یا گیا جہاں سے ان کو امریکا منتقل کیا گیا۔ اب کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا کیس دو سالوں میں مکمل ہوگا اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس فوجی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں،اور کبھی نقد معاوضے کی باتین کی جاتی ہیں،یہ تمام کوشیش اس لئے کہ اصل واقعے سے عالمی برادی کی توجہ مبذول کی جائے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ اس طرح اس قتل کے بابت نہ تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور نہ انسانی حقوق کی عالمی عدالت نے وہ ردعمل ظاہر کیا جو اس طرح کے واقعات کے وقت یہ ادارے ظاہر کرتے ہیں۔
ہماری نظر میں اس عظیم جرم میں قابضین کی اسپیشل فورسز کے علاوہ وہ تمام افراد شامل ہیں جو قابضین کو عام شہریوں کے قتل عام کے منصوبے بتا تے ہیں،انہیں اس کام پر ابھارا جاتا ہے اور اس بابت ان کے ساتھ معاہدے کیے جاتے ہیں ،یہ سب افغان عوام کے مجرم اورافغانوں کو جواب دہ ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان شروع سے اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ عالمی برادی کو اس بات پرآمادہ کرے،کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں قتل عام اور بعض مواقع میں نسل کشی جاری ہے،اوپر ذکر شدہ واقعات اس کی ایک اچھی مثال بھی ہے ،لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان اداروں کی جانب سے افغانستان میں انصاف عالمی سیاست کی بھینٹ چڑ چکی ہے،یہ ادارے حق اور کی حق علمبرداری کے بجائے وہ چاہتے ہین جس پر امریکا خوش ہوتا ہے اور یہ پھر یہ ادارے مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں،یہ دونوں اقدامات اورکردار انصاف کو قتل کرنے کا معنی رکھتی ہے۔
ہم کہنا چاہتے ہیں،کہ یہ بات ہرگز تسلیم کرنے والی نہیں ،کہ مجرم ایک شخص تھا اور اس کا ذہنی توازن خراب تھا،یہ ایک قصدا واقعہ تھا جسے امریکا کی اسپیشل فورسز نے کیا تو اس واقعے کے تمام قاتلین کو افغانستان کے اندر انتہائی صاف اور کھلے اندار میں عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے ۔اسی طرح امارت اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین نے اپنی جانب سے زنگ آباد کے واقعے کے متاثرین کو یہ پیغام دیا ہے آپ کے قاتلین کو اس سرزمین میں آرام کے ساتھ رہنے نہیں دیا جائے گا،اسی وعدے کے ساتھ گزشتہ روز مجاہدین نے ارزگان میں قابض افواج پر فدائی حملہ جس میں18 قابض فوجی کو ہلا ک کیا ،اسی طرح ہلمند کے نوزاد ضلع میں امریکیوں کے ایک چنیوک ہیلی کاپٹرمارگرایا گیا جس میں بڑی تعداد میں فوجی مارے گئے اور لشکر گاہ میں قابض افواج کے پی آر ٹی مرکز میں ایک مجاہد کی فائرنگ سے دو برطانوی فوجی ہلاک ہوئے،مجاہدین کی جانب سے اس طرح کے مضبوط حملے قابضین سے انتقام کا عمدہ آغاز ہے