Results 1 to 10 of 12

Thread: Kainat Ka Sab Se Bara Tauhfa

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Aug 2011
    Location
    SomeOne H3@rT
    Age
    38
    Posts
    2,345
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    825 Thread(s)
    Rep Power
    429514

    cute Kainat Ka Sab Se Bara Tauhfa

    ~ کائنات کا سب سےبڑا تØ+فہ ♥~

    مسجد ِ نبوی کےصØ+Ù† میں بیٹھ کر گنبد ِ خضریٰ Ú©Ùˆ تکتےرہناسرمد کا سب سےپسندیدہ عمل تھا۔ وہ جب سےاپنے آقا کےشہر میں آیاتھا اس نےنماز اور درود کےعلاوہ اورکسی Ø´Û’Ú©ÛŒ طرف دھیان ہی نہ دیا تھا۔ ہوٹل میں کپڑےبدلنےیا غسل کےلئےجاتا ورنہ اس کا سارا وقت وہیں گزرتا۔
    اللہ Ú©Û’Ø+بیب Ú©Û’Ø+ضور Ø+اضر ہو کر اس نےجو کیف پایا تھا‘ اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہ تھا۔ دل Ú©ÛŒ دھڑکنیں زبان کےساتھ صدا دیتی ہوئی‘ د رود شریف کےورد میں شامل رہتیں۔ ایک مہک تھی جو اسےہر طرف رقصاں Ù…Ø+سوس ہوتی۔ ایک نور تھا جو ہر شےپر Ù…Ø+یط نظر آتا۔ ایک سکون تھا جو اسےہوائوں میں تیرتا ملتا۔ آنکھیں بند کرتا تو اجالےبکھر جاتی۔ پلکیں وَا کرتا تو قوس قزØ+ کےرنگ Ú†Ú¾Ù„Ú© پڑتی۔ آقا کا خیال آتا تو نظر اشکوں سےوضو کرنےلگتی۔ واپس جانےکا خیال آتا تو جگر میں ایک ٹیس سی آنکھ کھول لیتی۔ مگر ‘ ہر ایک کیفیت میں مزا تھا۔ ایک لذت تھی۔ درد بھی اٹھتا تو سرور آمیز لگتا۔
    آخری دن تھا جب وہ دربار ِ نبوی میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنےکےبعد دعا کےلئےہاتھ اٹھائےکھڑا تھا۔ زبان گنگ تھی۔ لب کانپ رہےتھےاور دعا کےالفاظ کہیں گم ہو چکےتھی۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کے آنسو تھم ہی نہ رہےتھے۔ ہچکی بندھ گئی تو وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ آہستہ سےوہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسکنےلگا۔
    ”میرے آقا ۔ میرےمولا ۔میں کیا مانگوں؟ کوئی طلب ہی نہیں رہی۔ آپ کےدر پر آ گیا۔ اب اور کیا چاہوں؟ کس کےلئےچاہوں؟“
    اور ”کس کےلئے“ کےالفاظ پر ایک دم اس کےتصور میں ایک چہرہ ابھرا۔
    ”ہاں۔ اس کےلئےسُکھ عطاکیجئے۔ “ دل سےایک بار پھر مہک نکلی ۔
    ”اپنےلئےبھی تو کچھ مانگ پگلے۔“ ایک سرگوشی نےاسےچونکا دیا۔ اس نےادھر ادھر نظر دوڑائی۔جس کی صدا تھی‘ وہ کہیں نظر نہ آیا۔لوگ اس سےدور دور تھے۔
    ”اس در پر آ کر کچھ نہ مانگنا بد نصیبی ہے۔ کچھ مانگ لے۔ کچھ مانگ لے۔“ کوئی اسےاکسا رہا تھا۔ اسےسمجھا رہا تھا۔ مگر کون؟ اس نےبار بار تلاش کیا۔ کوئی دکھائی نہ دیا۔تھک کر اس نےسر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
    ”کیا مانگوں؟“ اب وہ خود سےسوال کر رہا تھا۔”کیا مانگوں؟ کیامانگوں؟“ اس کا رواں رواں پکار رہا تھا۔پھر جیسےیہ سوال جواب میں بدل گیا۔اسےاپنی زبان پر اختیار نہ رہا۔ اپنی طلب پر اختیار نہ رہا۔ اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
    ”میرے آقا ۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھےوہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئےجو مجھےکامیاب کر دے۔“
    ان الفاظ کےادا ہوتےہی جیسےاس Ú©ÛŒ زبان پر تالا Ù„Ú¯ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سےبھی ہلکا۔ وہ بےوزن ہو گیا۔ اس نےبات ان Ú©ÛŒ مرضی پہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دی تھی جنہیں اللہ نےاپنا Ø+بیب بنایا اور لوØ+ Ùˆ قلم پر تصرف عطا کر Ø¯ÛŒØ§Û”Ù…Ø§Ù†Ú¯Û’Ø³Û’Ù„ÙˆÚ ¯ من Ú©ÛŒ مرادیں پاتےہیں۔ بِن مانگے‘ اپنی مرضی سےوہ کیا عطا کر دیں‘ کون جان سکتا ہے؟سرمد نےنفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسےنفع کا سودا‘ جس کےلئےاس کےپلےصرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سےاس کا ازلی Ùˆ ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق Û”Û”Û” جس نےاسےہجر Ùˆ فراق Ú©ÛŒ بھٹی میں تپا کر کندن بنانےکی ٹھان Ù„ÛŒ تھی۔
    اپنے آقا Ùˆ مولا کےدر کےبوسےلیتا ہوا وہ مسجد ِ نبوی سےرخصت ہوا۔ Ú†ÙˆÚ©Ú¾Ù¹ Ú©Ùˆ چوم کر دل Ú©Ùˆ تسلی دی۔ Ø+دود ِ مدینہ سےنکلنےسےپہلے خاک ِ مدینہ پر سجدہ کیا۔ اسےہونٹوں اور ماتھےسےلگایا۔ پھر مٹھی بھر یہ پاکیزہ مٹی ایک رومال میں باندھ کر اپنی اوپر Ú©ÛŒ جیب میں رکھ لی۔ اس کےلئےیہ کائنات کا سب سےبڑا تØ+فہ تھا۔

    عشق کا قاف
    سرفراز اØ+مد راہی
    Last edited by Hidden words; 05-08-2012 at 01:15 AM.

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •