باقی سب اس معرفت سے پہلے کے مرحلے ہیں

محبت، پیار، عشق، بندگی شائید ایک ہی جذبے کے مختلف نام ہیں۔ عشق چاہے مجاز سے ہو مگر اسکے سوتے پھر بھی حقیقت سی ہی پھوٹتے ہیں۔ اور محبت نہ تو کی جاتی ہے اور نہ ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کوئی حادثہ نہیں کائنات کی سب سے اٹل اور نہ تبدیل ہونے والی حقیقت ہے۔ محبت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہم جسے محبت کرنا کہتے ہیں وہ درحقیقت اسکا وجدان کرنا ہے۔ اسکا احساس کرنا ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک اندھیرے کمرے میں کھڑے ہو اور نہیں جانتے کہ آپ کے اردگرد کیا ہے اور پھر جیسے آپ کو کوئی ٹارچ مل جائے۔ اب آپ کو احساس ہو گا کہ کمرے میں تو نجانے کتنی شاہکار تصاویر لگی ہیں۔ ایسی میں کتنے شکرگزار ہو گے آپ اس ٹارچ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی عشق مجازی کی حقیقت ہے۔ ہم اس مانگے کی روشنی سے حقیقت ہی دیکھتے ہیں۔

اورپھر ان تصویروں کو دیکھتے دیکھتے آپ کے اندر کی آنکھ بیدار ہوتی ہے اور اب جو آپ اپنی ہی روشنی میں دیکھتے ہو تو یہ عشقِ حقیقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری نظر میں عشق صرف حقیقت سے ہی سزاوار ہے اور باقی سب اس پہچان سے پہلے کے مرحلے ہیں۔

سید اسد علی