ایک مصور کو خیال آیا کہ وە نیکی کی تصویر تیار کرے۔ چنانچہ وە شہروں اور دیہاتوں میں برسوں گھومتا رہا۔ آخر ایک روز اسے ایک نہایت حسین بچہ نظر آیا جس کا رنگ گورا تھا، آنکھیں موٹی اور حیا دار تھیں، جسم سڈول اور ملائم، پیشانی روشن اور فراخ، دست و پا نرم و نازک تھے۔ وە فرطِ مسرت سے چلا اٹھا "مل گئی، نیکی کی تصویر مل گئی" ۔ چنانچہ اس نے اس بچے کی تصویر کو اپنے سٹوڈیو میں لٹکا دیا اور نیچے لکھ دیا "نیکی کی تصویر"۔
ایک عرصہ کے بعد اسے خیال آیا کہ بدی کی تصویر بھی بنانی چاہیۓ۔ چنانچہ اس مقصد کے لۓ وە دنیا میں نکل پڑا۔ بیسیوں برس تک گھومتا رہا۔ لاکھوں، کروڑوں چہرے دیکھے، بد سے بد تر لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی۔
آخر ایک دن اُسے ایک عجیب چہرە نظر آیا کہ اسے دیکھتے ہی اس کا دل نفرت و حقارت کے جذبات سے بھر گیا۔ اب وە پھر چِلا اٹھا "مل گئی، مل گئی بدی کی تصویر مل گئی"۔
اور یہ تصویربھی اس کے سٹوڈیو کی زینت بن گئی۔ اربابِ ذوق اس کے سٹوڈیو مہں آتے جاتے رہتے۔ ایک دن ایک شخص آیا اور ان دونوں تصاویر کے سامنے تصویرِ حیرت بن کر کھڑا ہو گیا اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور مصور سے یہ کہ کر چلا گیا کہ یہ دونوں تصاویر میری ہیں۔
الله تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے" شر اور خیر کا ذرە ذرە تولا جاتا ہے"
قرآنِ پاک میں یہ بھی ارشاد ہے " آپ صلی الله علیہ وسلم کیا سمجھے علیین (نیکو کاروں کا مقام) کیا ہے اور سجین (بد کاروں کا مقام) کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب (فلم) ہے"۔
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
" ہم نیکو کاروں کو نہ صرف ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے بلکہ کچھ زیادە ہی عنایت کریں گے۔ ان کے چہروں کو ذلت اور سیاہی سے محفوظ رکھیں گے اور جنت کی بہاروں میں انہیں دائمی مسکن عطا کریں گے۔ دوسری طرف ہم بد کاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دیں گے، ان کے چہروں پر ذلت برسائیں گے، انہیں ہماری قاہرانہ گرفت سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ ان کے منہ اس قدر سیاە ہو جائیں گے گویا شبِ تاریک کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر ان کے رُخ پر چپکا دیا گیا ہو۔ یہ لوگ سدا جہنم میں رہیں گے" (سورەٴ یونس)
ان آیات پر تفکرکریں تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ انسان کے اچھے برے اعمال کا عکس چہرے میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور جو بندە جس قسم کے کام کرتا ہے اسی مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات مرقوم ہوتے رہتے ہیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی