عشقٍ مجازی سے عشقٍ حقیقی تک کا فاصلہ بس "پیلو پکنے" کی دیر تک ھے۔ پیلو چننے سے ابتدا ھے۔ سب سنگی ساتھی مل کر چنتے ہیں۔۔ پیار کی امرتیاں؛ "محبت" کے "پیلو"۔۔۔ پیلو چنتے چنتے آنکھیں ملتی ہیں، دل ملتے ہیں اور پھر جدائی کا زمانہ شروع ھو جاتا ھے۔۔۔۔۔ پیلو ختم ھوجاتی ھیں اور انتظار شروع ھو جاتا ھے۔ چہروں کی سرخیاں ختم ھو جاتی ہیں اور انسان "ھکا بکا" رہنے لگتا ھے۔ پھر کب آئے پیلو کا موسم اور یار مل کے پیلو چنیں۔۔۔۔ فرید نے پیلو کیا چنیں‘ درد چن لیا۔ ایسا درد جس کا مداوہ بھی وہ خود ہی ھے۔ ایسا سفر جس کا انجام بھی سفر ہی ھے۔ جس کی منزل ایک نئی مسافرت ھے۔ ایسا راز کہ بیاں بھی ھو اور فاش بھی نہ ھو۔ ایسا یار ملا کہ شہ رگ سے قریب ھو اور نگاہوں سے اوجھل ھو۔ یہ انعام ھے کہ سزا‘ جو کچھ بھی ھے‘ لطف ھے۔ اس کا الطاف ھے جو درد بن کے ساتھ رہتا ھے۔ محسوس ھوتا ھے لیکن نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔ جو جلوہ بن کے دل سے گزرتا ھے اور آنسو بن کے آنکھ سے ٹپکتا ھے۔۔۔۔ فرید کی خزاں سدا بہار ھے۔ اس پر مخفی راز آشکار ھے۔ جتنا آشکار ھے اتنا پرسرار ھے۔ کوئی فرید کا یار ھو تو جانے کہ فرید نے "پیلو" کے موسم میں کیا کیا دیکھا۔۔۔۔۔ کیا کھویا کیا پایا۔۔۔۔۔ سب کچھ نثار کیا اور سب کچھ پا لیا۔ فرید نے اپنی ذات نثار کی اور حسن کا عرفان پایا۔
واصف علی واصف