کہاں کہاں سے مٹائے گا، خوش گماں میرے
تیرے بدن سے تیری روح تک، نشاں میرے

کہیں بھی جا کے بسا لے تُو بھول کی بستی
محیط ہیں تیرے، یادوں کے آسماں میرے

اگرچہ فاصلہ دو چند کر لیا تو نے
رواں دواں ہیں تیری سمت کارواں میرے

میں جاؤں بھی تو کہاں، چھوڑ کر تیری گلیاں
تُو کر گیا سبھی رستے دھواں دھواں میرے

عبور ہوتے نہیں، روز طے تو کرتا ہوں
یہ ہجر فاصلے، یہ بحرِ بے کراں میرے

ہوا کے بیڑے کسی اور سمت بہتے ہیں
کھلے ہیں اور کسی سمت بادباں میرے

میں اپنے جذبوں کی شدت سے خوف کھاتا ہوں
کہ دشمنوں سے ہیں بڑھ کر، یہ مہرباں میرے

میں خواب زار کی کرتا تو ہوں چمن بندی
اجاڑ دے نہ کوئی آ کے گلستاں میرے

شگوفے آ گئے پلکوں پہ درد کے آخر
چھپا سکے نہ میرے راز، راز داں میرے