کیسی Ù…Ø+بت ØŸ کیسا عشق ØŸ

تØ+ریر : شرر جی

آج کافی دنوں Ú©Û’ بعد میں اتنی گہری نیند سویا تھا۔ کیونکہ Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ Ú©Ú†Ú¾ عرصہ سے میں بےخوابی کا شکار رہا تھا۔ رات رات بھر نیند نا آتی۔ اور کئی راتیں تو ایسی بھی تھیں کہ جو جاگ کر گزر گئیں تھیں۔ مگر آج جانے کیا تھا کہ میں رات ڈھائی بجے تک تو کروٹیں لیتا رہا مگر پھر جانے کب آنکھ Ù„Ú¯ گئی پتا ہی نہیں چلا۔ اور ابھی صبØ+ صادق Ú©ÛŒ پہلی اذان نہیں ہوئی تھی۔ کہ کوئی میرے کمرے کا دروازہ بری طرØ+ سے پیٹ رہا تھا۔ دستک Ú©ÛŒ آواز اتنی تیز تھی کہ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ‘ کون ہے بھئی میں Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ ناگواری سے دریافت کیا۔ اور جواباََ ایک مانوس سی آواز Ù†Û’ میرے کان Ú©Û’ پردوں Ú©Ùˆ چھوا -------------- ارے شرر دروازہ کھولو یار کیا بےہوشی میں دھت Ù¾Ú‘Û’ رہتے ہو۔ دروازہ کھولو جلدی سے -------------- ارے یار ہوا کیا ہے؟ تم ہمیشہ بے وقت ہی ٹپکتے ہو۔ سو جاؤ جا کر صبØ+ بات ہوگی -------------- نہیں یار شرر ابھی بات ہوگی Û” دروازہ کھولو ورنہ میں دروازہ توڑ کر اندر آجاؤں گا -------------- یار کیا کمینہ پن ہے۔ ابے Ú©Ú†Ú¾ شرم کرو رات Ú©Û’ اس پہر الو جاگتے ہیں سو جاؤ دیکھو ساری انسانیت ہی سوئی ہوئی ہے Û” اوہ سوری ساری خلقت ہی سوئی ہوئی ہے-------------- ہاں تو انسان سوتے ہیں تو کیوں سویا ہوا ہے؟ ویسے تو روز رات رات بھر جاگتے ہو اور مجھے بھی سونے نہیں دیتے ہواور آج مجھے انسانیت کا درس دے رہے ہو۔ اٹھ جاؤ ورنہ میں دروازہ توڑ کر اندر آجاؤں گا -------------- اگر میں تھوڑی سی بھی اور دیر کرتا تو اس کمینے Ù†Û’ سچ Ù…Ú† میں ہی میرا دروازہ توڑ کر اندر آجانا تھا۔ جی جناب یہ وہی ہیں آپ Ú©Û’ جانے پہچانے مسٹر "ف"Û” بتاؤ کیا کام ہے جناب Ú©Ùˆ رات Ú©Û’ اس پہر -------------- یار شرر تجھے نہیں پتا باہر کیا ہوا ہے؟ -------------- کیا ہوا ہے میں Ù†Û’ Ø+یرانگی سے پوچھا؟ -------------- تجھے واقعی نہیں پتا؟ یا جان بوجھ کر معصوم بننے Ú©ÛŒ کوشش کر رہے ہو -------------- اوہ خدا Ú©Û’ بندے تو میرا توا لگانے آیا ہے رات Ú©Û’ اس پہر جا کہیں جا کر سو جا۔ یا پھر ایسا کر میرے ساتھ والے پلنگ پر ہی براجمان ہوجا۔ اور خدا کہ لئے مجھے بھی سونے دے۔ پہلے ہی ڈاکٹر صاØ+ب ناراض ہیں مجھ سے کہتے ہیں کہ تو اپنا دھیان نہیں رکھتا۔ وقت پر سوتا نہیں ہے‘ وقت پرکھاتا نہیں ہے ‘ ہر کام بے وقت کرتا ہے۔ اور اگر آج ڈاکٹر صاØ+ب Ú©ÛŒ درخواست پر عمل ہو ہی رہا ہے تو جناب Ú©Ùˆ کوئی تکلیف ہو رہی ہے -------------- یار شرر تجھے واقعی نہیں پتا۔ بڑا افسوس ہے تجھ پر یار۔ Ú©Ù„ Ú©Ùˆ اپنے پروردگار Ú©Ùˆ کیا منہ دکھائے گا۔ Ú©Ú†Ú¾ شرم کر یار تیرے ہمسائے میں موت واقع ہو گئی ہے اور تجھے نیند Ú©ÛŒ سوجھ رہی ہے -------------- میں یہ سن کر شاکڈ ہو گیا۔ کتنی دیر تک میرے منہ سے کوئی الفاظ نا Ù†Ú©Ù„Û’ کہ میں آخر اسے کیا جوا دوں۔ میں اپنے ہی اندر شرم سے پانی پانی ہو کر رہ گیا تھا۔ کافی دیر گزر جانے Ú©Û’ بعد میرے منہ سے اناللہ وانا علیہ راجعون Ú©Û’ کلمات Ù†Ú©Ù„Û’Û” کون فوت ہوا ہے -------------- یار اپنے باسط بھائی کا بیٹا عبدالقادر فوت ہوگیا ہے -------------- نہیں کر یار Û”Û”Û”Û” اسے کیا ہوا ہے؟ -------------- ہوئے کا تو مجھے بھی نہیں پتا میں بھی شور سن کر باہر نکلا تھا تو پتا چلا کہ باسط صاØ+ب کا لڑکا انتقال فرما گیا ہے تو میں Ù†Û’ سوچا کہ تجھے بھی جگا دوں ویسے تو بڑا سوشل بنا پھرتا ہے۔ اور تیرے ساتھ والے گھر میں موت واقع ہو گئی ہے اور تجھے Ú©Ú†Ú¾ خبر ہی نہیں -------------- یار میں وہ ڈاکٹر صاØ+ب Ú©ÛŒ ناراضگی سے بچنے Ú©Û’ لئے سلیپنگ پلز کا ایک چوتھائی Ø+صہ Ù„Û’ کر سو گیا تھا۔ اس لئے مجھے شور سنائی نہیں دیا۔ Ú†Ù„ اٹھ باہر چلتے ہیں۔ پتا کرتے ہیں کیا ہوا ہے عبدالقادر Ú©ÙˆÛ” ابھی شام Ú©Ùˆ ہی تو مجھ سے Ù¾Ú‘Ú¾ کر گیا تھا اور ایسا کوئی بیمار بھی نہیں تھا۔ باسط صاØ+ب میرے پڑوس میں رہتے ہیں اور ان کا ایک ہی بیٹا تھا عبدالقادر۔ چار بیٹیوں Ú©Û’ بعد اللہ Ù†Û’ باسط انکل Ú©ÛŒ سنی تھی۔ اور ماشاءاللہ بہت ہی پیارا بیٹا تھا عبدالقادر۔ مگر اس بیچارے Ú©Ùˆ ہوا کیا تھا۔ میری سمجھ سے باہر تھی یہ بات۔ میں اپنے بستر سے اٹھا اور "ف" کا بازو Ù¾Ú©Ú‘Û’ اسے کمرے سے Ù„Û’ کر باہر آگیا۔ باہر Ú¯Ù„ÛŒ میں Ù…Ø+Ù„Û’ Ú©Û’ باقی لوگ بھی جمع ہو رہے تھے۔ میں اور "ف" دونوں شبیر صاØ+ب Ú©Û’ پاس جاکر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو گئے۔ یہ باسط صاØ+ب Ú©Û’ چھوٹے بھائی ہیں۔ جب میں ان Ú©Û’ Ú¯Ù„Û’ لگا تو وہ بیچارے پھوٹ پھوٹ کر رونے Ù„Ú¯Û’Û” میرے بھائی Ú©Û’ گھر Ú©Ùˆ Ø¢Ú¯ Ù„Ú¯ گئی۔ دیکھو کیا ہوگیا ہم تو لٹ گئے۔ میں Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ Ø+وصلہ دیا۔ اللہ کریم Ú©Û’ ہر کام میں مصلØ+ت ہوتی ہے۔ جو اللہ Ú©Ùˆ منظور صبر سے کام لیں۔ انکل اللہ Ú©Ùˆ یہی منظور تھا۔ ہم لوگ ابھی Ú¯Ù„ÛŒ ہی میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ تھے کہ ایمبولینس میں لاش گھر Ø¢ گئی تھی۔ اور ایمبولینس Ú©Û’ پیچھے ایک پولیس وین بھی تھی۔ جسے دیکھ کر میرے دل میں کھٹکا ہوا مگر ہمارے "ف" صاØ+ب تو سنتری بادشاہوں Ú©Û’ پاس جا کر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو گئے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ مجھے پریشانی سی لاØ+Ù‚ ہو گئی تھی Ú©ÛŒ ماجرا کیا ہے۔ عبدالقادر Ú©ÛŒ ابھی عمر ہی کیا تھی صرف سترہ سال اور Ú©Ú†Ú¾ دنوں تک اس Ú©Û’ نویں جماعت Ú©Û’ پیپر بھی شروع ہونے والے تھے۔ اور کبھی کبھی وہ ریاضی کا کوئی سوال سمجھنے میرے پاس آجایا کرتا تھا۔ سچ میں مجھے ابھی تک صØ+ÛŒØ+ طرØ+ ہوش نہیں آرہی تھی۔ اب پتا نہیں کہ سلیپنگ پلز Ú©ÛŒ وجہ سے تھا یا اچانک عبدالقادر Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ خبر Ù†Û’ مجھے چونکا دیا تھا۔ مجھے چکر سے آنا شروع ہو گئے اور میں سر Ù¾Ú©Ú‘ کر پاس ہی سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ موت تو برØ+Ù‚ ہے اور یہ آنی ہی آنی ہے۔ مگر اماں بھولی فرماتی ہیں کہ پتر موت وقت وقت دی Ú†Ù†Ú¯ÛŒ Ù„Ú¯ دی اے (موت وقت پر ہی آئے تو اچھی لگتی ہے( مجھے یہ سن کر بڑا عجیب لگتا کہ موت کا وقت تو Ø·Û’ ہے۔ پھر یہ کون سے وقت Ú©ÛŒ موت Ú†Ù†Ú¯ÛŒ ہوتی ہے۔ ویسے یہ موت بھی نا ہمارے معاشرے میں بڑی ظالم اور بڑی بے رØ+Ù… جانی جاتی ہے جب کہ موت کہتی ہے کہ وہ Ø+Ú©Ù… ربی Ú©ÛŒ تابع ہے۔ تو پھر کیا اسے مظلوم سمجھنا چاہیئے۔ خیر یہ سب قصے سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہی ہیں۔ کیوں کہ جس کا پیارا جاتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ موت ظالم ہے یا مظلوم۔ میری طبیعت جب Ú©Ú†Ú¾ ناساز ہونا شروع ہو گئی تو میں اٹھ کر گھر چلا آیا۔ نماز فجر ادا Ú©ÛŒ اور مرØ+وم عبدالقادر Ú©ÛŒ مغفرت Ú©ÛŒ دعا کی۔ ظہر Ú©Û’ بعد نماز جنازہ قریبی جنازگاہ میں ادا کیا گیا۔ اور پھر اس Ú©ÛŒ تدفین کردی گئی۔ Ú©Ù„ تک جو ایک زندہ Ùˆ جاوید لڑکا تھا آج من Ùˆ مٹی تلے دفن تھا۔ مگر اس Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ وجہ کیا تھی یہ ایک بڑی کربناک داستان ہے۔ جسے بیان کرنے Ú©Û’ لئے مجھے بہت Ø+وصلہ اور بہت ساری ہمت اکٹھی کرنا Ù¾Ú‘ رہی ہے۔ یہ الفاظ بظاہر تو بہت سادہ سے اور عام فہم الفاظ ہیں مگر ان Ú©Ùˆ کاغذ پر اتارنے Ú©Û’ لئے مجھے کس کس کیفیت سے گزرنا پڑا یہ میں ہی جانتا ہوں۔ یا میرا اللہ جانتا ہے۔ --------------

عبدالقادر بظاہر ایک شریف النفس اور خوش مزاج لڑکا تھا عمر کوئی Ù„Ú¯ بھگ سترہ یا ایک دو ماہ Ú©Ù… یا زیادہ تھی۔ نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ چند دن پہلے اپنے گھر والوں Ú©Û’ ساتھ اپنی کسی عزیز Ú©ÛŒ شادی میں شرکت Ú©Û’ لئے سکھر گیا ہوا تھا۔ جہاں اس Ú©ÛŒ ملاقات ایک ادھیڑ عمر شائستہ سے ہوئی۔ شائستہ چار بچوں Ú©ÛŒ ماں تھی۔ جس Ú©ÛŒ سب سے بڑی بیٹی نو سال Ú©ÛŒ تھی۔ یہ عبدالقادر Ú©Û’ دور پرے Ú©Û’ رشتہ داروں میں سے تھی۔ بس وہ کہتے ہیں نا کہ ہونی Ú©Ùˆ کون ٹال سکتا ہے۔ شائستہ Ú©Ùˆ عبدالقادر بہت پسند آیا تھا۔ یا یوں کہہ لیا جائے کہ دونوں ہی ایک دوسرے پر فدا ہو گئے تھے۔ یہ بات کوئی Ø°ÛŒ شعور سنتا تو کیا کہتا۔ سب ہی شائستہ Ú©Ùˆ برا بھلا کہتے کہ بچے Ú©Ùˆ ورغلا رہی ہے۔ اب پتا نہیں یہ ورغلانا تھا یا Ø+قیقت میں وہ عبدالقادر پر فدا ہو Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ عبدالقادر چونکہ ابھی Ú©Ú†ÛŒ عمر کا تھا۔ جسے ابھی یہ شعور ہی نا تھا کہ Ù…Ø+بت کیا ہوتی ہے اور Ø+وس کیا۔ جسم Ú©ÛŒ بھوک کس Ú©Ùˆ کہتے ہیں۔ دونوں Ú©Û’ درمیان پیار Ú©ÛŒ پینگ پروان Ú†Ú‘Ú¾ گئی تھی۔ Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ بیل منڈیر Ù„Ú¯ گئی تھی Û” شادی سے فارغ ہوکر گھر والے سبھی واپس آگئے تھے مگر عبدالقادر ضد کرکے چند دنوں Ú©Û’ لئے مزید وہیں ٹھہر گیا تھا۔ اور پھر کیا تھا عبدالقادر تو بالکل آزاد تھا کیوں کہ اب گھر والے واپس فیصل آباد جاچکے تھے اور اسے اب کسی بھی چیز کا کوئی ڈر خوف نہیں تھا۔ شائستہ عبدالقادر Ú©ÛŒ پھوپھو Ú©Û’ گھر Ú©Û’ پاس ہی رہتی تھی اور اس کا خاوند دوبئی میں مقیم تھا۔ پھر تو دونوں ہی Ú©Ùˆ کسی کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ عبدالقادر سارا سارا دن شائستہ Ú©Û’ گھر گزارتا تھا۔ اور پھوپھو کیا کسی Ú©Û’ بھی دماغ میں ایسی کوئی بات Ø¢ ہی نہیں سکتی تھی کہ دونوں Ú©Û’ درمیان Ù…Ø+بت پروان Ú†Ú‘Ú¾ Ú†Ú©ÛŒ ہے اور یہ تعلق اب صرف زبانی کلامی کا تعلق نہیں رہا تھا۔ اس Ù…Ø+بت Ù†Û’ ناصرف عمر Ú©Û’ فرق Ú©Ùˆ پامال کیا تھا بلکہ اس Ù†Û’ تو جسموں Ú©Û’ تقدس پر بھی وہ کیچڑ اچھالا تھا کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ Ú©Ú†Ú¾ دن تک یہ جسموں کا بندھن بندھا رہا پھر کیا ہوا عبدالقادر Ù…Ø+بت Ú©Û’ وعدے اور Ø+سین سپنوں Ú©ÛŒ یادیں دل میں لئے واپس فیصل آباد آگیا مگر دونوں Ú©Û’ درمیان رابطہ قائم تھا۔ ساری ساری رات موبائل پر باتیں ہوتیں۔ انگڑائیوں کا ذکر ہوتا۔ جسم Ú©ÛŒ بدلتی کروٹوں Ú©Û’ قصے بیان ہوتے۔ اور پھر آخر Ú©Ùˆ بات Ú†Ù„ Ù†Ú©Ù„ÛŒ اور عبدالقادر Ú©Ùˆ گھر والوں Ù†Û’ رنگے ہاتھوں Ù¾Ú©Ú‘ لیا۔ تھوڑا بہت سمجھانے پر Ú©Ú†Ú¾ دن تعلق کا طلاطم Ú©Ú†Ú¾ سنبھلا تھا مگر جسم Ú©ÛŒ Ø+وس بہت بری ہوتی ہے اور نفس تو انسان Ú©Ùˆ پکڑتا ہی اسی Ø¢Ú¯ Ú©Ùˆ بھڑکا کر ہے۔ رابطے پھر بØ+ال ہو Ú†Ú©Û’ تھے Û” اب دونوں میں یہ Ø·Û’ ہوا کہ عبدالقادر اپنے گھر والوں Ú©Ùˆ منائے گا اور شائستہ اپنے خاوند سے طلاق Ù„Û’ Ù„Û’ Ú¯ÛŒ اور پھر دونوں شادی کرلیں Ú¯Û’Û” مگر عبدالقادر Ú©Û’ گھر والے اس رشتے Ú©Ùˆ کیسے قبول کرتے۔ اور Ú©Ú†Ú¾ نہیں تو اگر دونوں Ú©ÛŒ عمر ہی کا فرق نکالا جاتا تو عبدالقادر Ú©ÛŒ عمر سے زیادہ دونوں Ú©ÛŒ عمر کا فرق تھا۔ اور ماں اپنے اکلوتے لخت جگر Ú©Û’ فیصلے Ú©Ùˆ مانتی تو کیسے مانتی۔ ابھی اس Ú©ÛŒ عمر ہی کیا تھی۔ صرف سترہ سال۔ مگر کیا یہ واقعی میں عشق تھا یا Ø+وس؟ جسم Ú©ÛŒ Ø+وس؟ میری عقل فیصلے سے قاصر ہے۔ آپ کا میں Ú©Ú†Ú¾ کہہ نہیں سکتا۔ پھر بات بڑھتے بڑھتے یوں بڑھی کہ شائستہ Ù†Û’ کہا کہ تم اپنے ماں باپ Ú©Ùˆ مرنے Ú©ÛŒ دھمکی دو۔ انھیں ڈراؤ کہ تم خود Ú©Ø´ÛŒ کرلو Ú¯Û’ اور ہو سکے تو ان Ú©Ùˆ ڈرانے Ú©Û’ لئے ایک آدھ سلیپنگ پلز بھی لےلو۔ اور پھر یوں ہی ہوا عبدالقادر Ù†Û’ گھر والوں Ú©Ùˆ پریشرائز کرنا شروع کردیا۔ دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ کبھی کھانا پینا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتا تو کبھی گولیاں کھانے Ú©ÛŒ دھمکیاں دیتا۔ ہر وقت ماں سے بدتمیزی ‘ ہر وقت بہنوں سے لڑائی۔ اور پھر ایک دن اس Ù†Û’ وہ کر دکھایا جس Ú©ÛŒ اس سے امید Ú©ÛŒ جارہی تھی۔ اس Ù†Û’ گھر والوں Ú©Ùˆ ڈرانے Ú©Û’ لئے سلیپنگ پلز کھا لیں مگر سلیپنگ پلز Ú©ÛŒ تعداد Ú©Ú†Ú¾ زیادہ ہو گئی جو بالآخر اس Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ وجہ بنی۔ مگر اس صدمے Ù†Û’ بوڑھے باسط صاØ+ب Ú©ÛŒ کمر توڑ دی تھی۔ ماں Ú©ÛŒ Ø+الت قابل رØ+Ù… تھی اور میں یہ سب دیکھنے Ú©Û’ باوجود صرف دو بول ہمدردی Ú©Û’ بول سکتا تھا۔ ان Ú©Ùˆ بس صبر Ú©ÛŒ تلقین کر سکتا تھا۔ مگر اگلے ہی دن خبر ملی کہ رات Ú©Ùˆ شائستہ Ù†Û’ بھی سلیپنگ پلز کھالیں ہیں اور اسے بھی بچایا نہیں جا سکا۔ اور مرØ+ومہ چار چھوٹے چھوٹے بچوں Ú©Ùˆ روتا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر اپنے خالقِ Ø+قیقی سے جا ملی ہیں۔ مگر اس سانØ+Û’ سے چار بچے رل گئے دو ماں باپ اجڑ گئے اور کسی Ú©Û’ ہاتھ Ú©Ú†Ú¾ نا آیا۔ اور میں ایک بے Ø+س انسان اب اسی سوچ میں Ú¯Ú¾Ù… ہوں کہ شائد دونوں Ú©Û’ درمیان Ù…Ø+بت کا رشتہء Ø+قیقی بند گیا تھا۔ اور وہ دو جسم اور اک جان بن گئے تھے۔ جنھیں جدا کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ پر میرا ضمیر گوارا کرنے Ú©Ùˆ تیار نہیں وہ مجھے ملامت کرتا ہے کہ نہیں یہ Ù…Ø+بت نہیں Ø+وس تھی کیوں کہ عشق وہ ہوتا ہے جس میں عاشق رسوا ہو جاتا ہے مگر عشق پر آنچ نہیں آنے دیتا Û” یہ کیسا عشق تھا جسے اس Ú©Û’ عاشقوں ہی Ù†Û’ رسوا کردیا تھا۔ اس بات Ú©ÛŒ تہہ میں جانے میں مجھے کوئی خاص وقت نہیں لگا کیوں کہ میں جب پریشان عبدالقادر اور شائستہ Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ وجہ تلاش کر رہا تھا تو میرے پاس بیٹھے مسٹر "ف" Ù†Û’ بڑی ہی آسانی سے مجھے وہ وجہ سمجھا دی۔جو شائد مدتوں سوچتے رہنے پر بھی مجھ عیاں نا ہوتی -------------- یار شرر اس سارے واقعےکے پیچھے جانتے ہو کہ کیا معاملہ ہے؟ -------------- نہیں یار میں وہی سوچ رہا ہوں -------------- مگر مجھے تو معلوم ہے -------------- کیا معلوم ہے مجھے بھی تو بتاؤ -------------- یار یہ جو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں Ú©Ùˆ موبائل تھما دیتے ہیں نا کہ لو بیٹا جیب میں رکھو تاکہ ہمیں پتا رہے کہ ہمارے بچے کہاں ہیں۔ یہی سب سے بڑی فساد Ú©ÛŒ وجہ ہے۔ یار شرر ایک وعدہ کر میرے ساتھ -------------- کیا وعدہ؟ -------------- یار تو عبدالقادر Ú©ÛŒ سٹوری ضرور Ù„Ú©Ú¾Û’ گا۔ تاکہ ماں باپ Ú©Ùˆ پتا ہو کہ ہمیں اپنے بچے Ú©Ùˆ Ù…Ø+بت Ú©Û’ ساتھ ساتھ قابو میں بھی رکھنا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ماں باپ مار مار کر بچے کا Ø+لیہ بگاڑ دیں مگر ہمیں اپنے بچوں Ú©Ùˆ سچ کا درس دینا ہو گا اور یہ اسی وقت کامیاب ہوگا جب ہم خود سچ بولیں Ú¯Û’ اور اپنے بچوں Ú©Û’ لئے ایسا فرینڈلی ماØ+ول بنائیں Ú¯Û’ کہ بڑی سے بڑی غلطی بھی وہ ہم سے شئیر کرنے میں ججھک Ù…Ø+سوس نا کریں اور پھر ہم ان Ú©ÛŒ اس غلطی کا تدارک کریں اور انھیں اØ+ساس بھی دلائیں کہ آئندہ وہ ایسے اقدام سے گریز کریں بات صاف سی ہے شرر ہمیں اپنے بچوں Ú©Û’ ماں باپ سے اب دوست بننا ہوگا اگر اب ہم اپنی اولاد Ú©ÛŒ تربیت درست طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔ مسٹر "ف" Ú©ÛŒ باتیں سن کر میں Ø+یرت سے انگشت بدنداں تھا۔ کہ ایک ان Ù¾Ú‘Ú¾ جاہل جس Ù†Û’ کبھی سکول Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ نہیں دیکھی۔ وہ مجھے ایک سکالر سے بڑا سکالر Ù„Ú¯ رہا تھا کہ کتنی بڑی بات وہ کتنی سادگی سے کر گیا تھا۔ سچ میں ہمیں اپنے بچوں Ú©Û’ ساتھ اب ماں باپ والا رویہ ختم کر Ú©Û’ ایک اچھے دوست والا رویہ رکھنا Ù¾Ú‘Û’ گا۔ تب ہی ہم اس بھنور سے اپنی اولاد Ú©Ùˆ نکال سکیں Ú¯Û’Û”

کیسی Ù…Ø+بت ØŸ کیسا عشق ØŸ
وبال جاں ہے بس اور کچھ نہیں